
لاہور (محمد اشفاق) پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 22 پر عمل درآمد کا حکم دیدیا۔
اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 22 پر 4 سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا، اب زیادتی کے جھوٹے مقدمات درج کرنے والوں کو جیل جانا ہو گا، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے آئی جی پنجاب کو مراسلہ بھجوا دیا۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 22 کے تحت زیادتی کیس کی ناقص تفتیش کرنے والے تفتیشی افسران اور جھوٹا مقدمہ درج کروانے والوں کیخلاف مقدمہ درج ہوتا ہے لیکن اس سیکشن پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا جس کے باعث جھوٹے مقدمات درج کروانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
زیادتی کے جھوٹے مقدمات درج کرانیوالوں کو تین سال قید ہو سکتی ہے، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 22 پر من وعن عمل درآمد کرنے کا حکم دیدیا جب کہ زیادتی کیس کی ناقص تفتیش کرنے والے پولیس افسر بھی جیل جائیں گے۔
قانونی ماہر قرۃ العین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ زیادتی کے مقدمات میں حقائق مختلف ہوتے ہیں اور جب ٹرائل ہوتا ہے تو اکثر مقدمات جھوٹ کی بنیاد پر درج ہوتے ہیں، ایسے افراد کے خلاف اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 22 کا اطلاق ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹا مقدمہ درج کروانے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہو گا اور پھر تین سال تک سزا ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس سیکشن سے متعلق آگاہی نہیں دی گئی اور نہ ہی عمل درآمد ہوا۔
جسٹس ریٹائرڈ عبادالرحمان لودھی کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جھوٹے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر تفتیشی افسر ناقص تفتیش کرے تو اس کیخلاف بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔