(لاہور نیوز) اپنی مدُھر آواز سے دلوں کے تار چھو لینے والی منفرد انداز کی گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 15 برس بِیت گئے۔
نامور گلوکارہ اقبال بانو 27 اگست 1935 کو دہلی میں پیدا ہوئیں، فنی سفر کا آغاز نیم کلاسیکل گانوں سے کیا اور جلد ہی فلم نگری کی ضرورت بن گئیں، اقبال بانو نے دہلی گھرانے کے استاد چاند خان سے بچپن ہی میں کلاسیکل موسیقی سیکھنا شروع کر دی، ان کے فلمی گیتوں میں ترنم اور رچاؤ ان کے گانوں کی پہچان ہے۔
80 کی دہائی میں اقبال بانو اس وقت ایک متاثر کن شخصیت بن کر سامنے آئیں جب انہوں نے جنرل ضیاء حکومت کی جانب سے پابندی عائد کئے جانے والے گانے گائے، غزل گائیکی میں تو اقبال بانو کو ملکہ حاصل تھا ہی، ٹھمری اور دادرا میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
اقبال بانو کا گایا ہوا فیض احمد فیض کا کلام ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ پاکستان میں وکلاء تحریک کا ترانہ بن گیا تھا، اقبال بانو کو 7 اکتوبر 1974 کو حکومت پاکستان کی جانب سے ’تمغہ حسنِ کارکردگی ‘ سے نوازا گیا۔
اپنی خوبصورت آواز سے جادو جگانے والی گلوکارہ اقبال بانو 74 برس کی عمر میں 21 اپریل 2009 کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں لیکن ان کی آواز آج بھی لوگوں کی سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔