عدت نکاح کیس، قانونی تقاضے پورے ہوئے نہ شفاف ٹرائل کا حق ملا: وکیل بشریٰ بی بی
(ویب ڈیسک) بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وکیل نے عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے ہوئے اور نہ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق دیا گیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج شاہ رخ ارجمند نے عدت میں نکاح کیس میں بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی، دوران سماعت بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن آئے، دلائل دے تو میں بھی دوں گا، سزا معطلی کی استدعا کروں گا۔
وکیل عثمان گل نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ خاور مانیکا نے 3 بار بشریٰ بی بی کو طلاق دی، پھر کیا رہ گیا؟ اگر خاور مانیکا نے طلاق دے دی تو پھر رجوع کا حق ختم ہو گیا، ماضی میں خاور مانیکا کا بشریٰ بی بی سے متعلق بیان بھی عدالت میں چلایا گیا، خاور مانیکا نے بیان میں کہا میری سابقہ اہلیہ دنیا کی پاک خاتون تھیں۔
عثمان گل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے کہا ملزم نے چارج شیٹ پر دستخط نہیں کئے جب کہ دستخط ہوئے، جوڈیشل آرڈر بھی مناسب نہیں، بتایا گیا بشریٰ بی بی عدالت کو اطلاع دیئے بغیر واپس چلی گئیں، بشریٰ بی بی کی استثنیٰ کی درخواست، ہسپتال کا میڈیکل بھی ساتھ لگایا، ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے ہوئے اور نہ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق دیا گیا۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی سیشن عدالت پہنچ گئے اور کیس سے متعلق یو ایس بی عدالت میں جمع کرائی، سیشن عدالت نے عملے کو یو ایس بی چیک کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت میں کیس کے گواہ مفتی سعید کا عدت سے متعلق بیان چلایا گیا جس کے بعد وکیل سلمان اکرم نے ٹرائل کورٹ میں مفتی سعید پر کی گئی جرح عدالت میں پڑھی۔
سلمان اکرم نے کہا کہ ہمارے خلاف ٹرائل میں ہر کام جمعہ کے روز شروع ہوتا تھا اور ہفتے کو فیصلہ آ جاتا تھا، مفتی سعید نے کہا مجھ سے عون چوہدری نے رابطہ کیا، پچھلے اور نئے کیس میں بھی عون چودھری نے مجھ سے رابطہ کیا، مفتی سعید نے کہا کہ میرا نکاح اور عدت سے متعلق بیان وہی ہے جو دیا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ طلاق کا طریقہ کار ہوتا ہے جس میں یونین کونسل سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے، ہمارے معاشرے میں طلاق کے سرٹیفکیٹ کی وصولی والا طریقہ کار بیشتر بار نہیں اپنایا جاتا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نومبر 2017 کو دی گئی طلاق کا یونین کونسل کو آگاہ کرنا غیر ضروری ہے، بشریٰ بی بی نے کہا اپنے نکاح سے مکمل مطمئن ہوں، فراڈ کے کوئی عناصر نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے دائرہ اختیار سے متعلق بار بار آواز اٹھائی، بشریٰ بی بی کا بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کرایا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے کیس کے دائرہ اختیار پر کچھ وضاحت نہیں کی۔
وکیل عثمان گل نے کہا کہ عون چودھری سیاسی حریف ہے جس نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف کیس کو مینج کیا، ریکارڈ پر موجود ہے کہ خاور مانیکا سے قبل نامعلوم شہری محمد حنیف نے شکایت دائر کی، عجیب بات ہے کہ محمد حنیف اور خاور مانیکا دونوں کے وکیل رضوان عباسی تھے۔
سماعت کے دوران سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے استفسار کیا کہ کیا بشریٰ بی بی نے اپنے بچوں کو بطور گواہ پیش کرنے سے متعلق بیان دیا؟
وکیل عثمان گل نے کہا کہ میں نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ اہل خانہ کو بطور گواہان عدالت بلانا ہے، ٹرائل کورٹ کو نام نہیں بتائے ورنہ رات کو گواہان کو غائب کر دیا جاتا۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر رانا حسن عباس عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے تین سے چار نکات پر دلائل دینے ہیں۔
پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا کہ شکایت کے علاقائی دائرہ اختیار کا بھی تعین کرنا ضروری ہے، بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی کی شادی لاہور میں ہوئی، اسلام آباد میں نہیں، فرد جرم دفعہ 496 پر لگائی گئی، دائرہ اختیار کا تعین نہیں کیا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کے دلائل کی تائید کرتا ہوں۔
رانا حسن عباس نے کہا کہ اپریل 2023 میں محمد حنیف نے ایسی ہی شکایت دائر کی تھی، میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہوا تھا، محمد حنیف کی شکایت قابل سماعت قرار نہیں دی گئی تھی۔
رانا حسن عباسی نے کہا کہ علاقائی دائرہ اختیار کا تعین کئے بغیر عدت میں نکاح کیس کا ٹرائل کیا گیا۔
سماعت کے دوران خاور مانیکا کے وکیل رضوان عباسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کے معاون وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔
بعد ازاں عدالت نے عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی۔
سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت پر فیصلے میں کہا کہ گزشتہ سماعت پر رضوان عباسی عدالت پیش نہیں ہوئے، شکایت کنندہ کی جانب سے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی نہیں لگایا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر آئندہ سماعت پر شکایت کنندہ پیش نہ ہوئے تو سزا معطلی پر فیصلہ سنا دیاجائے گا، آئندہ سماعت پر شکایت کنندہ حاضر نہ ہوئے تو سماعت ملتوی نہیں کی جائے گی۔