(لاہور نیوز) زرخیز ادبی ورثے کی حامل منفرد ادیبہ الطاف فاطمہ کو مداحوں سے بچھڑے 6 برس بیت گئے۔
اردو ادب میں جہاں مردوں نے اپنی فنی عظمت کے انمٹ نقوش ثبت کئے وہیں خواتین بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہیں، معروف خواتین لکھاریوں کی فہرست میں ایک نام الطاف فاطمہ کا بھی ہے جنہوں نے افسانہ اور ناول نگاری میں منفرد مقام بنایا، ان کا یہ منفرد اسلوب اُنکے کرداروں میں جھلکتا ہے، ان کے ناولز اور افسانوں میں حُبّ الوطنی اور مذہبی رنگ پڑھنے والوں کو واضح نظر آتا ہے۔
1927 ء کو لکھنو میں پیدا ہونے والی معلمہ اور ہمہ جہت ادیبہ الطاف فاطمہ نے قیام پاکستان کے بعد لاہور کو اپنا مسکن بنایا، اسلامیہ کالج برائے خواتین سے شعبہ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں، نشانِ محفل ، دستک نہ دو، چلتا مسافر اورخواب گر، کے نام سے چار ناول تصنیف کئے، افسانوں کے چار مجموعے وہ جسے چاہا گیا، تارِعنکبوت، جب دیواریں گِریہ کرتی ہیں، دید وَ دید اور گواہی آخرشب کی بھی الطاف فاطمہ کی ہی تخلیق ہیں۔
یہی نہیں بلکہ الطاف فاطمہ نے دیگر زبانوں کے بہت سے افسانوں کو بھی ترجمہ کرکے اردو زبان کی لڑی میں پرویا، 29 نومبر 2018ء کو یہ منفرد ادیبہ دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔