لاہور: (زین العابدین) سموگ نے شہر لاہور کو تو گزشتہ ایک دہائی سے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے مگر سموگ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔
سموگ کا لفظ پہلی بار 1905 میں برطانوی سائنسدان ایچ اے ڈیس ووز نے استعمال کیا، ماضی میں سموگ سے 1909 میں گلاسگو اور ایڈنبرگ میں ایک ہزار اموات ہوئی تھیں۔
سموگ نے پچھلے ایک عشرے سے لاہور کو نشانے پر لے رکھا ہے، ہر سال دو سے تین ماہ ایئر کوالٹی انڈیکس تشویشناک ہو جاتا ہے، دھواں اور دھند مل کر زہریلی اور انسان دشمن دھند کو جنم دیتے ہیں، ان تین ماہ کے دوران باغوں کا شہر کہلانے والا گرد کا شہر بن جاتا ہے۔
فضائی آلودگی کے باعث بچے، جوان، بزرگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سموگ: پنجاب حکومت کا جمعہ اور ہفتےکو تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ
خیال رہے کہ لاہور میں سموگ کے بادل 2014 میں چھانا شروع ہوئے اور ہر سال سردی سے پہلے سموگ کے بادل گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس سموگ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔
سموگ نے دنیا کو آج نہیں کئی صدیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سموگ کا لفظ پہلی بار 1905 میں برطانوی سائنسدان ایچ اے ڈیس ووز نے استعمال کیا، دنیا کے امیر ترین، مشہور ترین اور بڑے شہر بھی سموگ سے بچ نہیں سکے، ہالی وڈ فلموں کا گھر لاس اینجلس ہو یا لندن سبھی اس کی لپیٹ میں رہے۔
اس کو بھی پڑھیں: سموگ نے لاہوریوں کی جان نہ چھوڑی ،سورج بھی منہ چھپانے لگا
ترقی یافتہ ممالک پیسے کے زور پر سموگ کا کوئی نہ کوئی توڑ کر لیتے ہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس موقع پر بارش کی دعا کا سہارا لیا جاتا ہے، ڈیس ووز نے مانچسٹر کانفرنس 1911 میں برطانوی شہروں، قصبوں کی آلودگی بیان کی، سموگ سے 1909 میں گلاسگو اور ایڈنبرگ میں ایک ہزار اموات ہوئیں۔
اکتوبر سے دسمبر کے تین ماہ میں سموگ پر قابو پانے کے کئی احکامات دیئے جاتے ہیں، جونہی سموگ کا سیزن ختم ہو تمام احکامات اور منصوبے فراموش ہو جاتے ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ لاہور میں انسداد سموگ کے پائیدار اور طویل المیعاد حل درکار ہیں۔
خیال رہے کہ ڈنگ ٹپاؤ منصوبوں سے کام چلنے والا نہیں، ہر شعبے کو سموگ کے تدارک کیلئے اقدامات میں حصہ ڈالنا ہوگا۔