(ویب ڈیسک) پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے کہا ہے کہ مجھے کیریئر میں سفارشی ہونے کے طعنے نے ہمیشہ پریشان کیا ہے،لوگ معلوم نہیں کہاں سے اس طرح کی باتیں لے آتے ہیں حالانکہ فیملی کا سلیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔
برطانوی جریدے کو انٹرویو میں شان مسعود کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران 6 سال ڈراپ رہا، ہر بار ڈومیسٹک میں پرفارم کرکے واپس آیا، میں نے کبھی بھی کسی غیر منصفانہ عمل کی حمایت نہیں کی۔
قومی کرکٹر کا کہنا تھا کہ بطور قوم ہم کافی جذباتی ہیں، اگر کسی پلیئر کا کسی سے تعلق ہے تو لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ پلیئر محنت سے آگے بڑھا ہے، لوگ سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین کرنا شروع کردیتے ہیں، آپ سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھ دیں، لوگ یقین کرلیں گے، یہاں سپورٹس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بہن کی برسی کے روز پاکستان ٹیم انگلینڈ کیخلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں ناکام ہوئی تھی، اس روز بہن کی یاد میں ایک پوسٹ لگائی اس پوسٹ کے جواب میں مجھے گالیاں دی گئیں۔
شان مسعود کا کہنا تھا کہ جب کپتان بنایا گیا تھا تب بھی بہن کے ساتھ میری ایک پوسٹ پر مجھے برا بھلا کہا گیا تھا، بہن کی وفات کا دکھ کافی گہرا تھا، ان سخت حالات نے مجھے یہ سکھایا کہ ذہنی صحت پر توجہ دینا کتنا ضروری ہے۔
شان مسعود نے مزید کہا کہ 2016 میں ٹیم کی کارکردگی سے میرے ذاتی کیریئر میں کافی بدلاؤ آیا تھا، میں اپنی زندگی عام لوگوں کی طرح گزارتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہر کوئی بابراعظم کا فین ہے، میں بھی ہوں، بابر اعظم کی خدمات پاکستان کیلئے بہت بڑا اثاثہ ہے لیکن بابر نے جو عہدہ چھوڑا تھا وہ کسی کو تو حاصل کرنا تھا۔
شان مسعود کا کہنا تھا کہ جب آپ کپتان ہوتے ہیں تو بات شان یا بابر کی نہیں، ٹیم پاکستان کی ہوتی ہے، عہدہ اپنی جگہ رہے گا، اس عہدے پر آنے والے لوگ بدلتے رہیں گے، بابر سے لوگ جس طرح محبت کرتے ہیں، ان کی جگہ لینا کبھی آسان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے لئے اہم ہے کہ میں اپنے مطابق کپتانی کروں اور ٹیم کو آگے بڑھاؤں، آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ مجھے کب اور کن حالات میں کپتانی ملی تھی، جب آپ کپتان ہوتے ہیں تو صرف اپنا نہیں سوچتے، فیصلہ سازی بہت اہم ہوتی ہے، بطور کپتان یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ پلیئرز کسی فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد کرسکتے ہیں۔
شان مسعود کا کہنا تھا کہ کپتانی صرف فیلڈ تک محدود ذمہ داری نہیں ہوتی، ایک کپتان کو بہتر انداز میں چیزوں اور پلیئرز کو منیج کرنا آنا چاہیے، کپتان کو اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے معاملات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھار کپتانی کی ذمہ داری کی وجہ سے اپنے کام سے توجہ ہٹ سکتی ہے تاہم اپنے ارد گرد کے ساتھیوں کا خیال رکھنا کافی اہم ہوتا ہے۔
قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ سیکھا ہے کہ مشکل حالات میں تحمل مزاجی بہت اہم ہے، آپ جتنا کم شکوہ کرتے ہیں اور جتنے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں، چیزیں اتنی آسان ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں اب فلیٹ وکٹس نہیں ہوتیں، مقابلے چار دن میں مکمل ہوجاتے ہیں، جب آپ حریف پر دباؤ ڈالتے ہیں اور تھوڑا مختلف کھیلتے ہیں تو بہتر نتیجہ ملتا ہے۔
اپنے انٹرویو کے دوران قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود کا کہنا تھا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بین سٹوکس کی قیادت میں انگلش ٹیم کے انداز سے بہت متاثر ہیں۔