(ویب ڈیسک) حلقہ بندیوں میں آبادی کے تناسب کے معاملے پر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے جائزہ رپورٹ جاری کر دی۔
رپورٹ کے مطابق 180 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد عمومی اجازت سے تجاوز ہے، اسمبلیوں کے 20 فیصد سے زائد حلقوں کی آبادی میں کمی بیشی کی شرح 10 فیصد کی قانونی حد سے زیادہ ہے، یہ فرق پارلیمنٹ سے منظور مساوی رائے دہی کے اصول کے بھی خلاف ہے۔
فافن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر مقامی سطح پر اعتراضات وصول کرے، الیکشن کمیشن ادارہ شماریات کو آبادی کے تفصیلی اعداد و شمار جاری کرنے کی ہدایت کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ اور حلقوں کی فہرستوں میں آبادی کا فرق پارلیمان کی منظور ترمیم کے تحت نہیں کیا گیا، صرف قومی اسمبلی کے 11 اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے میں حالیہ ترمیم کا اطلاق کرتے ہوئے بین الاضلاعی حلقے بنائے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان 11 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے 6 خیبر پختونخوا میں، 3 پنجاب اور 2 سندھ میں ہیں، صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ ایک سے زائد اضلاع کے علاقوں پر مشتمل ہے، دس فیصد سے زائد آبادی کے فرق والے حلقوں کی تعداد 2022 کی حلقہ بندیوں سے بھی بڑھ گئی ہے، الیکشن قواعد کو حالیہ ترمیم کے مطابق اپ ڈیٹ نہ کرنے کے باعث آبادی کی عدم مساوات سامنے آئی ہے۔
فافن کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ایک پوری اسمبلی کے کسی بھی دو حلقوں کے درمیان آبادی کا فرق ہر ممکن حد تک دس فیصد سے کم ہونا چاہیے، قومی اسمبلی کے سب سے بڑے حلقے این اے 39 بنوں کی آبادی 13 لاکھ 57 ہزار 890 ہے جبکہ سب سے چھوٹے حلقہ این اے ون چترال کی آبادی 5 لاکھ 15 ہزار 935 ہے۔
فافن کی جائزہ رپورٹ کے مطابق این اے 39 کی آبادی این اے ون سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے، صوبائی اسمبلیوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، مجوزہ حلقہ بندیوں پر ووٹروں کی جانب سے زیادہ اعتراضات دائر کیے جائیں گے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے اپیل کی ہے کہ الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات دائر کرنے کے عمل کو آسان بنائے۔