(لاہور نیوز) بجلی کے بلز ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مترادف ہے۔ حکومت شہریوں کو کئی طریقوں سے لوٹنے میں مصروف ہے۔
مہنگائی کی چکی میں پسے غریب عوام پر بجلی کے بل بم بن کر گرے۔ بجلی کی قیمت کے ساتھ عجیب ٹیکسز سے بلوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔ لیسکو کی جانب سے چارجز اور میٹر کا وہ کرایہ لیا جا رہا جو صارف کی ملکیت ہے۔ باقی رنگا رنگ کے درجن سے زائد ٹیکسز وفاقی ادارے وصول کر رہے ہیں۔
صرف جی ایس ٹی کے نام پر تین طرح کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس، ایکسٹرا سیلز ٹیکس اور فردر سیلز ٹیکس کو بلوں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ بجلی کی بنیادی قیمت وصول کرنے سمیت 48 سے 50 فیصد ٹیکس لیے جا رہے ہیں۔
یونٹس کی عجیب بندر بانٹ ہے ، صرف1 یونٹ بڑھنے سے بل دوگنا ہو جاتا ہے۔ 300 یونٹس استعمال کرنے والے صارف کو بجلی 48 روپے یونٹ پڑنے لگی۔ 48 روپے فی یونٹ میں بجلی کی بنیادی قیمت 32 روپے اور 16 روپے ٹیکسز کے ہیں۔ تقسیم کار کمپنیاں بھی شہریوں سے 5 قسم کے ٹیکس وصول کر رہی ہیں۔ پیداوار، فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ پھر ٹوٹل پر ٹیکسز وغیرہ لیے جا رہے ہیں۔ عام صارف سے بجلی کی قیمت، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ، فیول ایڈجسٹمنٹ بھی لی جانے لگی۔ انکم ٹیکس، ایکسائز ٹیکس، جی ایس ٹی، میٹر رینٹ اور ٹی وی فیس الگ سے لی جا رہی ہے۔
ایف سی سرچارج بجلی کے منصوبوں پر لیے گئے قرض پر سود کی رقم ہے۔ صارفین بجلی کی قیمت کے علاوہ 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ ایف سی سرچارج دیتے ہیں۔ صارفین سے بجلی پر 20 پیسے فی یونٹ ایکسائز ڈیوٹی بھی وصول کی جاتی ہے۔ صارفین 1 روپے 24 پیسے فی یونٹ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ادا کر رہے ہیں۔ ہر ماہ مختلف شرح کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بھی وصول کی جاتی ہے۔
ریڈیو جس کا استعمال ہی متروک ہو چکا، آنے والے بلوں میں 15 روپے اس کی فیس بھی ڈالی جائے گی۔