(ویب ڈیسک) بجلی صارفین کے بلز زیادہ کیوں آئے اور بنیادی ٹیرف کس وجہ سے بڑھا؟۔ آڈٹ رپورٹ میں پاور سیکٹر کا کچا چٹھا کھل کر سامنے آگیا۔
صارفین کے بجلی بلز زیادہ کیوں آئے، بنیادی ٹیرف کیوں بڑھا؟، ان سوالات کے جوابات سامنے آگئے۔
مالی سال 2022-23ء کی آڈٹ رپورٹ نے پاور سیکٹر کا کچا چٹھا کھول دیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ غیر معیاری پلانٹس، مستقل نادہندگان، کیپسٹی پیمنٹ اور بجلی چوری، نرخ، زیادہ بلوں اور بنیادی ٹیرف میں اضافے کی وجوہات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین کو 2 ہزار 302 ارب سے زائد کے بلز بھیجے، ایک ہزار 849 ارب کی ریکوری کی گئی، ڈسکوز نے 453 ارب کی ریکوری ہی نہیں کی، جس کی وجہ سے شارٹ فال کا سامنا رہا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقسیم کار کمپنیوں میں چوری یا عدم ریکوری کی شرح 60 فیصد رہی، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے 136 ارب روپے نقصانات کئے، تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات 91 ارب سے بڑھ کر 136 ارب تک پہنچ گئے۔
سال 23-2022ء کی آڈٹ رپورٹ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا، پاور سیکٹر میں ایک ہزار ارب روپے کے ڈیڈ ڈیفالٹرز کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق نادہندگان نے پاور سیکٹر کا مالی توازن بگاڑ دیا، بوجھ بڑھا دیا۔ آڈٹ حکام نے نیپرا کنٹرول پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر معیاری پاور پلانٹ چلانے سے صارفین کو 41 ارب کا اضافی بل دینا پڑا، مہنگے درآمدی فیول کی وجہ سے 126 ارب کا خزانے پر بوجھ پڑا۔