لاہور (محمد اشفاق) لاہورہائیکورٹ نے جعلی وکیل کی درخواست ضمانت منظور کرکے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس امجد رفیق نے قرار دیا کہ جعلی وکیل کیخلاف کارروائی کا اختیار صرف پنجاب بار کونسل کا ہے، کوئی شحض انفرادی طور پر کسی وکیل کو جعلی قرار دیکر مقدمہ درج نہیں کرواسکتا۔
جسٹس امجد رفیق نے نیا قانونی نکتہ طے کردیا۔لاہور ہائیکورٹ نے جعل سازی کے کیس میں مبینہ جعلی وکیل کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
جسٹس امجد رفیق نے ملزم قربان علی کی درخواست کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ ملزم کے خلاف اکتوبر 2024 میں ساہیوال میں جعلی وکیل ہونے سمیت دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایف آئی آر کے مطابق، ملزم نے دو نامعلوم افراد کے ساتھ شکایت کنندہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ شکایت کنندہ کے مطابق، ملزم وکیل بن کر فراڈ اور دھوکہ دہی کرتا تھا۔ شکایت کنندہ کے مطابق، ملزم نہ وکیل ہے اور نہ ہی وکالت کی کوئی ڈگری رکھتا ہے۔ شکایت کنندہ کے مطابق، ملزم کا نام پنجاب بار کونسل کی وکلا کی لسٹ میں بھی شامل نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کے وکیل نے دلائل دیے کہ ملزم کے خلاف کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔ وکیل کے مطابق، اس معاملے میں پنجاب بار کونسل کی مداخلت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ پنجاب بار کونسل کے وکیل نے آگاہ کیا کہ بار کونسل کو ملزم کے خلاف شکایت موصول نہیں ہوئی، جعلی وکیل کے خلاف متعلقہ عدالت یا ایف آئی آر کے ذریعے کارروائی کی جا سکتی ہے دونوں صورتوں میں پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی اتھارٹی کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
پنجاب بار کونسل کے بغیر کوئی فرد نجی سطح پر کوئی کارروائی شروع نہیں کر سکتا، موجودہ کیس میں ایف آئی آر درج کرواتے وقت پنجاب بار کونسل کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف کوئی بھی دستاویزی ثبوت اکٹھا نہیں کیا گیا، عدالت ملزم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتی ہے ۔
