
(ویب ڈیسک) کاٹن انڈسٹری کے تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
کاٹن ایئر 2025-26 کے دوران کاٹن جننگ و ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی پیداواری استعداد سے 50 فیصد سے بھی کم صلاحیت کے ساتھ بمشکل فعال ہوسکے گی جو اربوں ڈالر مالیت کی روئی کے ساتھ خوردنی تیل کی درآمدات بڑھانے کا باعث بنے گا۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نےکہاکہ پنجاب کے شہروں خانیوال اور بورے والا میں 3 جننگ فیکٹریاں فعال ہوچکی ہیں جبکہ سندھ کے شہر ٹنڈو آدم میں 25 مئی سے ایک دو جننگ فیکٹریاں فعال ہونے کی اطلاعات ہیں۔ابتدائی طور پر نئی پیداوار کی حامل روئی کے سودے 17 ہزار سے 17 ہزار 500 روپے فی من تک طے پارہے ہیں جبکہ نئی پھٹی کی 8 ہزار 300 روپے سے 8 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام تک خرید و فروخت ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تقریباً 50 سال بعد پاکستان میں کپاس کے بیج کی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کچھ عرصے قبل بعض اعلیٰ حکومتی شخصیات سمیت بعض نجی سیڈ کمپنیاں اپنے طور پر چین،آسٹریلیا، امریکا اور برازیل سے کپاس کا بیج لاکر پاکستان کے مختلف حصوں میں آزمائشی کاشت کا تجربہ کرچکی ہیں لیکن یہ تجربہ ناکام رہا جس کی بڑی وجہ پاکستان میں کراپ زوننگ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے کپاس کی فصل کامیاب نہ ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں کپاس کی پیداوار بنیادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی مقامی کھپت کا نہ ہونا اصل مسئلہ ہے جس کے باعث کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران پاکستان میں تاریخ کی دوسری کم ترین فصل صرف 55لاکھ گانٹھ ہونے کے باوجود اب بھی جننگ فیکٹریوں کے پاس 2 سے ڈھائی لاکھ گانٹھ کے لگ بھگ روئی قابل فروخت ذخائر موجود ہیں۔