(لاہور نیوز) ٹیکسوں سے بھرپور بجٹ میں سٹیشنری اشیاء بھی ٹیکسوں سے نہ بچ سکیں، سٹیشنری آئٹمز پر دس فیصد سیلز ٹیکس عائد کیے جانے سے تعلیمی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
ایک طرف اراکین پارلیمنٹ، گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز اور ایسے ہی دیگر اداروں کے لیے فنڈز میں اضافہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف عوام کو ٹیکسوں کی ایسی ٹکٹکی پر چڑھا دیا گیا ہے کہ کوئی جائے امان باقی نہیں رہی۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ فروغ تعلیم کے لیے دن رات دعوے کرنے والوں نے سٹیشنری آئٹمز پر بھی دس فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا ہے۔
حکومتی فیصلے کے بعد مختلف برانڈز کے رنگین پنسل سیٹس ، فاؤنٹین پینز، سیاہی، بال پن اور مارکرز وغیرہ کی خریداری پر دس فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا،اگرچہ یہ ٹیکس بظاہر بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اِس کا نافذ کیا جانا فروغ تعلیم کے حوالے سے ہماری کھوکھلی باتوں اور دعوؤں کو ضرورظاہر کرتا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ سٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسز سے دوسے تین ارب روپےحاصل ہوں گے تاہم سٹیشنری آئٹمز پر ٹیکس کے نفاذ سے تعلیمی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ضرور پیدا ہوا گیا ہے۔