(ویب ڈیسک) فیض آباد دھرنا کمیشن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کمیشن کو دیا گیا بیان سامنے آ گیا۔
شہباز شریف سے کمیشن نے 7 سوالات کے جوابات مانگے تھے، جس میں سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف توہین آمیز بیانات اور سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو جان سے مارنے کی دھمکی پر ایکشن لینے سے متعلق جوابات شامل تھے۔
شہباز شریف نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو دیئے گئے بیان میں کہا کہ پنجاب میں امن و امان کے معاملات پر کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے امن تشکیل دی گئی تھی جو صوبائی وزیر قانون اور بعض دیگر اہم صوبائی وزراء پر مشتمل تھی۔
انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ ٹی ایل پی پر پابندی سے متعلق انٹیلی جنس کی کوئی رپورٹ صوبائی حکومت سے شیئر نہیں کی گئی تھی، اس وقت فیض آباد دھرنے کا اندازہ نہیں تھا، ڈی سی راولپنڈی، کمشنر، سی پی او اور آر پی او کو ذیلی کمیٹی برائے امن و امان سے واضح ہدایات موصول ہوئی تھیں، افسران کو ہدایات تھیں کہ اسلام آباد انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا اپنے بیان میں کہنا تھا کسی تنظیم پر پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں دیئے گئے سخت معیار کے تحت ہوتی ہے، پابندی وزارت داخلہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق عائد کر سکتی تھی، طاقت کے استعمال سے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ ٹی ایل پی کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی مذاکرات ہو رہے تھے، ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت کے درمیان معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا، طے ہوا تھا ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات قانونی طریقہ کار کے بعد واپس لئے جائیں گے۔