(ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی جیل میں وکلا سے ملاقات کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بانی پی ٹی آئی کی سکیورٹی خدشات کے خاتمے تک آن لائن میٹنگ کا حکم دیتے ہوئے جیل سپرنٹنڈنٹ سے کل 22 مارچ کو عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
عدالت کے تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ وکلا کی سکیورٹی وجوہات کے باعث جیل میں ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی گئی، اگر آن لائن میٹنگ کی سہولت نہیں تو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کا بندوبست کرنے کی اجازت دی جائے۔
عدالت کا اپنے فیصلے میں یہ بھی کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو جس کمپنی کا انٹرنیٹ استعمال کیا جا رہا ہے اسے بیانِ حلفی جمع کرانے کا کہا جائے گا، آن لائن میٹنگ کی جگہ پر انٹرنیٹ تک رسائی مطلوبہ سپیڈ اور پرفارمنس سٹینڈرڈ کے مطابق ہونی چاہئے۔
حکم نامہ کے متن میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے فوری اعتراض اٹھایا تھا کہ جیل رولز میں آن لائن میٹنگز کی اجازت ہی نہیں، ایڈووکیٹ جنرل کی دلیل میں وزن نہیں کیونکہ جیل رولز 1978 میں ڈرافٹ کئے گئے، 1978 میں آن لائن ویڈیو میٹنگ کی سہولت موجود ہی نہیں تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اس کے بعد کسی موقع پر بھی ایسی آن لائن میٹنگ کی ضرورت پیش نہیں آئی، اس لئے آن لائن میٹنگز کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر عملدرآمد کیا جائے۔
حکم نامہ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آن لائن میٹنگ میں سیاسی گفتگو کی جائے گی، عدالت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ایڈووکیٹ جنرل کیا امید رکھتے ہیں، جیل میں فزیکلی ملاقات کرائی جاتی تو سیاسی گفتگو کے علاوہ کیا گفتگو کی جاتی؟