(محمد ارشد لئیق) پاکستان کی فلمی تاریخ کو جن فنکاروں پر بجا طور پر ناز ہے ان میں ایک بہت بڑا نام فلمساز، ہدایتکار، مصنف ، نغمہ نگار اور سٹوڈیو اونر شباب کیرانوی کا تھا جنھوں نے اپنی آل راؤنڈ کارکردگی سے فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔
شباب کیرانوی، 39 فلموں کے ہدایتکار، 23 فلموں کے فلمساز ، 63 فلموں کے مصنف اور 76 فلمی گیتوں کے شاعر تھے، انہوں نے کبھی کسی پنجابی فلم کی ڈائریکشن نہیں دی تھی لیکن پانچ فلموں کی کہانیاں لکھنے کے علاوہ چار فلموں کے فلمساز بھی تھے۔
1925ء میں اتر پردیش (بھارت) کے ضلع مظفر نگر کے علاقے کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام حافظ نذیر احمد تھا، وہ بنیادی طور پر صحافی تھے جنہوں نے صحافت کا آغاز فلمی جریدے ’’ڈائریکٹر‘‘ سے کیا، فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ’’جلن‘‘ تھی جبکہ ’’ثریا‘‘ وہ فلم تھی جس کی سب سے پہلے انہوں نے ہدایات دیں۔
ان کی فلم ’’مہتاب‘‘ جب ریلیز ہوئی تو اس نے کھڑکی توڑ بزنس کیا، یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس فلم نے شباب صاحب پر دولت کی بارش کر دی اور انہوں نے اس ایک فلم کی کمائی سے اپنا ذاتی فلم سٹوڈیو بنا لیا، انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اے احمد (سنگیت کار اے حمید نہیں) کے ساتھ اپنے پروڈکشن ہاؤس کی بنیاد رکھی، اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے انہوں نے جو پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا ’’انسانیت‘‘، یہ فلم بے حد کامیاب رہی، اس میں طارق عزیز اور علی اعجاز نے اپنے فلم کیریئر کا آغاز کیا، اس کے بعد انہوں نے ’’سنگدل‘‘ ’’انسان اور آدمی‘‘، ’’انصاف اور قانون‘‘، ’’دامن اور چنگاری‘‘، ’’میرا نام ہے محبت‘‘، ’’سہیلی‘‘، ’’نوکر‘‘ ، ’’شمع‘‘ ، ’’آئینہ‘‘ اور ’’صورت اور شمع محبت‘‘ جیسی کامیاب فلمیں دیں۔
شباب صاحب کو سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا، دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت معیاری ہوتی تھی، انہوں نے ایک مصلح (Reformer) کا کردار ادا کیا کیونکہ ان کی فلموں میں سماجی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی تھی۔
وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے ان کی اکثر فلموں میں امیر اور غریب کا ٹکراؤ دکھائی دیتا تھا اور وہ دولت مندوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ غریبوں اور ناداروں کو بھی انسان سمجھیں اور انہیں حقارت سے نہ دیکھیں، فلم کے اختتام پر وہ امیر اور غریب کو یکجا کر دیتے تھے اور یوں فلم بینوں سے داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔
ان کی فلمیں بہت سبق آموز ہوتی تھیں اور خواتین ان کی فلمیں بڑے ذوق و شوق سے دیکھا کرتی تھیں کیونکہ وہ خواتین کے حقوق کے بھی علمبردار تھے، اس کے علاوہ وہ اپنی فلموں میں مشرقی عورت کی خوبیاں اجاگر کرتے تھے، انہوں نے اپنی فلموں میں مغربی تہذیب کی دلداہ عورتوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستانی خواتین کو پیغام دیا کہ وہ مشرقی روایات سے روگردانی نہ کریں۔
شباب صاحب کی فلموں میں مزاحیہ اداکاری بھی کمال کی ہوتی تھی، ننھا، علی اعجاز، رنگیلا اور منور ظریف کی صلاحیتوں کو انہوں نے خوب نکھارا۔
شباب صاحب کی فلموں کی زیادہ تر موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم اشرف نے شباب صاحب کی فلموں کے جن گیتوں کی موسیقی دی ان میں 80 فیصد سے زیادہ گیت سپرہٹ ثابت ہوئے، شباب صاحب کے بارے میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ انہوں نے اداکار محمد علی کے فن کو انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیا، یہ شباب صاحب کا ہی کمال تھا کہ اداکار محمد علی نے ان کی فلموں ’’انسان اورآدمی‘‘ اور’’ انصاف اور قانون‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار کردار ادا کئے۔
انہوں نے میڈم نورجہاں، احمد رشدی، آئرن پروین اور مسعود رانا سے بڑے شاندار گیت گوائے، 70ء کی دہائی میں شباب صاحب نے ناہید اختر کی دلکش آواز کو اپنی فلموں کے نغمات کے لئے استعمال کیا، فلم ’’نوکر اور شمع‘‘ میں ناہید اختر نے ایم اشرف کی موسیقی میں بڑے دلکش گیت گائے جنہیں آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ شباب صاحب نے اسلم پرویز کو بھی ولن کی حیثیت سے جو کردار دیئے انہوں نے اسلم پرویز کے فن کو ایک نئی سمت سے روشناس کرایا، خاص طورپر ’’انسان اورآدمی‘‘، ’’انصاف اور قانون‘‘ اور ’’ دامن اور چنگاری‘‘ میں اسلم پرویز فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔
شباب کیرانوی کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلموں کو کئی ایک نئے چہرے دیے، انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی، کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز، ندیم (مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔
شباب صاحب سکرین رائٹر اور فلمی گیت نگار بھی تھے، ان کے دو شعری مجموعے’’موج شباب‘‘ اور’’ بازار صدا‘‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہوگئے تھے، شاعری میں وہ احسان دانش کے شاگرد تھے، شباب کیرانوی ناول نگار بھی تھے، انہوں نے ایک درجن کے قریب ناول لکھے، جن میں ’’ پھول کے سائے‘‘، ’’ایک عورت ہزار مرحلے‘‘، ’’درد دل اور خلش‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کے چند مشہور گیتوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
1۔ تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا(انسان اور آدمی)
2۔ کیا ملا ظالم تجھے کیوں دل کے ٹکڑے کر دیئے (میں بھی انسان ہوں)
3۔ یہ وعدہ کیا تھا محبت کریں گے (دامن اور چنگاری)
4۔ آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)
5۔ اللہ تیری شان یہ اپنوں کی ادا ہے (سہیلی)
انہیں کئی بار نگار ایوارڈ ، گریجویٹ ایوارڈ اور مصور ایوارڈ سے نوازا گیا، صاحب ثروت ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی تکبر کا مظاہرہ نہیں کیا، 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی عالم جاوداں کو سدھار گئے، پاکستانی فلمی صنعت کے لئے انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔