اپ ڈیٹس
  • 306.00 انڈے فی درجن
  • 595.00 گوشت مرغی
  • پولٹری
  • چینی یوآن قیمت خرید: 39.45 قیمت فروخت : 39.52
  • امریکن ڈالر قیمت خرید: 278.35 قیمت فروخت : 278.85
  • یورو قیمت خرید: 311.41 قیمت فروخت : 311.97
  • برطانوی پاؤنڈ قیمت خرید: 367.19 قیمت فروخت : 367.85
  • آسٹریلیا ڈالر قیمت خرید: 188.84 قیمت فروخت : 189.18
  • کینیڈا ڈالر قیمت خرید: 206.50 قیمت فروخت : 206.87
  • جاپانی ین قیمت خرید: 1.92 قیمت فروخت : 1.93
  • سعودی ریال قیمت خرید: 74.19 قیمت فروخت : 74.32
  • اماراتی درہم قیمت خرید: 76.31 قیمت فروخت : 76.45
  • کویتی دینار قیمت خرید: 911.31 قیمت فروخت : 912.95
  • کرنسی مارکیٹ
  • تولہ: 262700 دس گرام : 225200
  • 24 سونا قیراط
  • تولہ: 240807 دس گرام : 206432
  • 22 سونا قیراط
  • تولہ: 3116 دس گرام : 2674
  • چاندی تیزابی
  • صرافہ بازار
پنجاب گورنمنٹ

25 سال میں پنجاب نے پہلی بار ماحولیاتی رپورٹ جاری کر دی

23 Jun 2023
23 Jun 2023

(ویب ڈیسک) پنجاب حکومت نے 25 سال میں پہلی بار ماحولیاتی رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق پنجاب میں روزانہ 47300 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے، پنجاب میں آبی آلودگی اور پانی کی قلت ہر سال بڑھ رہی ہے، 2022 ء میں صرف 17 دن لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس صحت مند دہا، اس دوران پنجاب میں 30 ایئر کوالٹی اور 15 واٹر کوالٹی مانیٹرنگ سٹیشنز لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔

پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ 11 کروڑ ہے۔ پنجاب میں آبادی میں اضافے کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ صوبے کی آبادی کی کثافت 1972 میں 183 افراد فی مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 2017 میں 536 افراد فی مربع کلومیٹر ہو گئی ہے۔

صوبے میں مجموعی ملکی رقبے کا 56 فیصد کاشتکاری کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ قومی غذائی ضرورت کا 68 فیصد صوبہ پنجاب پوری کرتا ہے مگر سنگلاخ پہاڑوں، دریاؤں، وادیوں اور میدانوں کی زمین گذشتہ کئی سالوں سے شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہے۔

اس حوالے سے پنجاب حکومت نے 25 سال میں پہلی بار انوائرمنٹ رپورٹ جاری کی ہے۔ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب تیزی سے ماحولیاتی اور مصنوعی قدرتی بحران سے دوچار ہے۔ آب و ہوا کے لحاظ سے صوبہ پنجاب متنوع خصوصیات کا حامل ہے۔

پنجاب کے جنوبی علاقوں میں نیم بنجر سے لے کر شمالی علاقوں میں ٹھنڈے اور مرطوب علاقے ہیں۔ کم از کم اونچائی والے علاقے انتہائی شمالی اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبے کی آب و ہوا گرم ہے۔

ماحولیاتی خطرے سے بچاؤ کی آخری وارننگ جاری

رپورٹ میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈیٹا کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق 1975 سے 2005 کے درمیان 30 برسوں میں پنجاب کا کم سے کم درجہ حرارت 0.97 فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 1.14 فیصد بڑھا ہے۔ درجہ حرارت میں اسی اوسط اضافے کے ثمرات ہیں کہ گذشتہ سال 2022 صوبے کا چھٹا گرم ترین سال رہا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کے ادارہ شماریات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2022 میں پنجاب میں ہونے والی بارشیں اوسطاً ہونے والی بارشوں سے 70 فیصد زیادہ تھیں۔

رپورٹ کے مطابق زراعت کا شعبہ صوبے کی 47 فیصد افرادی قوت کے لیے ملازمتوں اور روزگار کی فراہمی کا وسیلہ ہے لیکن یہ شعبہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں کہ گذشتہ سالوں میں سیلاب کی تکرار اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010 کے سیلاب سے صوبے کی معیشت کو 219 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 2014 میں سیلاب سے جھنگ اور مظفر گڑھ کی ایک کروڑ ایکڑ کی ذرعی اراضی تباہ ہوئی۔ 2022 میں پنجاب کو ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا، شدید بارشیں بھی ہوئیں اور سیلاب کی صورتحال سے بھی نمٹنا پڑا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کے سیلاب سے پنجاب کی 4 لاکھ 38 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوئی، 7 لاکھ 33 ہزار مویشی جان سے گئے۔ اس سیلاب سے معاشی دھارے کو 566 ملین امریکی ڈالرز جبکہ انفراسٹرکچر اور دیگر نقصانات کی مد میں 515 ملین امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کی اہم ترین وجوہات میں آبادی میں اضافہ، شہروں میں بڑھتی آبادکاری، صنعتوں میں اضافہ، زرعی طلب کے تحت فصلوں کو جلانے کا عمل، گاڑیوں کی بڑھتی تعداد اور سرحد پار سے آنے والے اثرات شامل ہیں۔ یوں فضائی آلودگی صوبہ پنجاب میں تیزی سے بڑھتے ہوئے مسائل میں سے ایک ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ہر سال اکتوبر سے اپریل تک پنجاب کو سموگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صحت کے سنگین مسائل کا سبب بنتی ہے۔ لاہور جو کبھی باغات کا شہر سمجھا جاتا تھا، گزشتہ چند برسوں سے فضائی آلودگی کی خطرناک سطح کا سامنا کر رہا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں صرف 17 دن ایسے تھے کہ لاہور کے رہنے والوں کو سانس لینے کے لئے اچھی یا تسلی بخش ہوا میسر آئی۔

گلوبل برڈن آف ڈیزیز (GBD) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 103 افراد موت کا شکار ہوئے۔ آج بھی پاکستان میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی شرح عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فضائی آلودگی میں تیز اضافے سے 1998 سے 2006 کے دوران لاہور کی آبادی کی اوسط عمر میں 5.3 سالوں کی کمی ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے 2020 کے دوران رپورٹ کیا ہے کہ فضائی آلودگی کا 43 فیصد ٹرانسپورٹ سیکٹر، 25 فیصد صنعتی اور 20 فیصد زرعی شعبے سے خارج ہوتا ہے۔

2022 کے دوران پنجاب میں کل 1,327,730 گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ لاہور میں رجسٹر ہونے والی گاڑیاں پنجاب بھر کا ایک چوتھائی سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کا نمبر آتا ہے۔ اس مدت کے دوران رجسٹرڈ کی گئی گاڑیوں میں 88 فیصد موٹر سائیکلیں جبکہ 9 فیصد گاڑیاں شامل ہیں۔

پنجاب میں ہوا کے خراب معیار کی مانیٹرنگ کو درپیش ایک اہم چیلنج موثر میکنزم کا نہ ہونا ہے۔ محکمہ ماحولیات پنجاب کے پاس ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم کے مختلف سیٹ دستیاب ہیں۔ ان میں سے تین ایک پروجیکٹ میں موصول ہوئے تھے اور باقی چھ محکمے نے خود خریدے تھے۔ ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے سٹیشنوں کو ان کے مناسب کام کیلئے مسلسل مرمت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فلٹرز وغیرہ کو تبدیل کرنا شامل ہے۔

محکہ تحفظ ماحولیات کی ایڈیشنل سیکرٹری سمیعہ سلیم کے مطابق پنجاب میں 30 ایئر کوالٹی اور پندرہ واٹر کوالٹی مانیٹرنگ سٹیشنز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل معیار کے ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سٹیشنز باہر سے امپورٹ کئے جائیں گے۔

صنعتی یونٹس

پنجاب کے بڑے شہروں کے اطراف بڑے پیمانے کی صنعتیں ہیں جو ان شہروں کے ماحول کی آلودگی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ رہائشی علاقوں میں صنعتی یونٹس، منصوبہ بندی کے بغیر زرعی زمینوں کا صنعتی استعمال نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب ہے بلکہ مقامی قدرتی وسائل پر بوجھ ہونے کے ساتھ ساتھ پانی کو آلودہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔

رپورٹ کے مطابق آلودگی کی ذمہ دار صنعتوں میں سیمنٹ مینوفیکچرنگ پلانٹس، فرٹیلائزر پلانٹس، ٹیکسٹائل انڈسٹریز، شوگر انڈسٹریز اور پاور پلانٹس شامل ہیں۔

چشم کشا رپورٹ کے مطابق پنجاب کے مختلف اضلاع میں مختلف صنعتوں میں کل 392 صنعتی گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس (WWTPs) لگائے گئے ہیں۔

23 مختلف صنعتیں ہیں جن میں یہ پلانٹس نصب ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری پلانٹس کے حوالے سے سرفہرست ہے جبکہ فرٹیلائزر انڈسٹری میں سب سے کم واٹر ٹریرٹمنٹ پلاٹس لگے ہیں۔

ویسٹ ٹریٹمنٹ کی صورتحال

ایک اندازے کے مطابق پنجاب روزانہ کی بنیاد پر 47,300 ٹن میونسپل کچرا پیدا کرتا ہے۔ صوبے کی بڑھتی آبادی کوڑا کرکٹ اور کچرے کی بڑھتی مقدار کا سبب ہے۔ اس کچرے میں خوراک، شیشہ، ٹیکسٹائل، دھاتیں اور پلاسٹک کی اشیاء شامل ہیں۔ کچرا پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لاہور کا 29 فیصد حصہ ہے، اس کے بعد راولپنڈی، ملتان، قصور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور سیالکوٹ کا نمبر آتا ہے جبکہ دیگر 28 اضلاع پنجاب کے مجموعی کچرے کا 21 فیصد پیدا کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں صرف محمود بوٹی لینڈ فل سائٹ ایسی ہے جہاں کچرے سے نامیاتی کھاد بنانے کا کام لیا جاتا ہے جبکہ لکھوڈیر ماحولیاتی طور پر منظور شدہ صوبے کی واحد لینڈ فل سائٹ۔ دونوں لاہور میں واقع ہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں مختلف مقامات پر کچرے کو کھلے عام ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر کچرے کو جلانے، ری سائیکلنگ اور غیر قانونی ڈمپنگ کے طریقے استعمال ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 20 بیڈ کے ہسپتال مجموعی طور پر 2.8 ٹن زہریلا میڈیکل ویسٹ پیدا کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضلع قصور کے ہسپتالوں میں 27 فیصد میڈیکل ویسٹ جمع کیا جاتا ہے۔ لاہور سے میڈیکل ویسٹ جمع کرنے کی شرح صرف 4 فیصد ہے۔ صوبے بھر کے 47 نجی اور 40 سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکل ویسٹ کی پروسیسنگ کے یونٹس لگے ہیں تاہم یہ تمام یونٹس فعال نہیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ڈرینج سسٹم انتہائی ناقص ہے جس میں آرسینک سمیت دیگر مضر صحت کیمکلز پائے جاتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ والی جگہوں کے پانی کے نمونوں میں خطرناک کیمیکلز کی آمیزش کا بھی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے۔ صنعتی علاقوں میں مٹی اور پانی کی کوالٹی انتہائی ناقص اورآلودہ ہے۔

معدنی وسائل کا غیر محفوظ اخراج

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پنجاب معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ ضلع اٹک، جہلم، چکوال، خوشاب اور میانوالی پرمشتمل سالٹ رینج کوئلے کے وسیع ذخائر سے بھرپور ہے۔ اس کے علاوہ کالاباغ میں لوہے کے ذخائر پاکستان کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان معدنی وسائل کی کان کنی کے لئے بنیادی اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے ان وسائل کا اخراج فضائی و زمینی آلودگی اور مٹی کے کٹاؤ کا سبب بن رہا ہے۔ کان کنی کی سرگرمیاں ان علاقوں کی ماحولیات پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

کم ہوتے جنگلات

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2001 سے 2022 کے دوران، پنجاب میں آگ لگنے سے 88 ہیکٹر پر محیط جنگلات اور درختوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بناء پر 347 ہیکٹر پر درختوں کے کور کو نقصان پہنچا ہے۔

صرف 2009 میں آگ لگنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ 31 ہیکٹر پر پھیلے جنگلات کا نقصان ہوا۔ تھل کے علاقے میں کاشتکاری سے قدرتی طور پر اگنے والی کانٹے دار صحرائی جڑی بوٹی کا وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔

معدومیت کا شکار قدرتی حیات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پرندوں کی گیارہ اور جانوروں کی چھ اقسام معدومی کے خطرے دوچار ہونے کے باعث عالمی یونین برائے قدرتی بقاء کی ریڈ لسٹ میں شامل ہو چکی ہیں۔ معدومی کے خطرے کی سب سے بڑی وجہ ان جانوروں کو پرندوں کی قدرتی رہائشگاہوں پر بڑھتا انسانی قبضہ ہے۔

Install our App

آپ کی اس خبر کے متعلق رائے