(لاہور نیوز) معروف شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کو دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس بیت گئے۔
ہشت پہلو شخصیت کے مالک احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب کے ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق خانقاہ سے تھا اسی لئے مزاج میں قلندری اور صوفیت تھی، ان کا اصل نام احمد شاہ جبکہ ندیم تخلص ٹھہرا، احمد ندیم قاسمی نے پہلا شعر 1927ء میں کہا جبکہ پہلی نظم 1931ء میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور میں شائع ہوئی جو انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی۔
احمد ندیم قاسمی کے 17 افسانوی اور 6 شعری مجموعے شائع ہوئے، تنقید و تحقیق کی تین کتابیں چھپیں اور ترتیب و ترجمہ کے تحت چھ کتابیں منظر عام پر آئیں، انہوں نے بچوں کیلئے بھی بہت کچھ لکھا، ان کے افسانوں کے ترجمے ایک درجن سے زائد زبانوں میں چھپ چکے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’’پہاڑوں کی برف‘‘، ’’نصیب‘‘، ’’لارنس آف تھیلیسیا‘‘، ’’ بھاڑا‘‘، ’’ بدنام‘‘، ’’کفن دفن‘‘، ’’ رئیس خانہ‘‘، ’’ موچی‘‘، اور ’’ ماں‘‘ بے حد مقبول ہوئے، ان کو حکومتِ پاکستان نے 1968ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 1980ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ادب کی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 10 جولائی 2006ء کو ہمیشہ کیلئے گم ہو گیا، احمد ندیم قاسمی لاہور میں شیخ المشائخ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، اپنی منفرد تخلیقات کی بدولت احمد ندیم قاسمی ادب کے افق پر آج بھی درخشندہ ستارے کی مانند جگمگا رہے ہیں۔