(لاہور نیوز)پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے اور قرضوں کے بھنورمیں بری طرح پھنس چکا ہے، اس مشکل صورت حال سے پاکستان کو نکالنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ چکی ہیں ، ایس آئی ایف سی اس کی ایک کڑی ہے ، معاشی مسائل راتوں رات حل نہیں ہوں گے یہ تو طے ہے لیکن ایسے اقدامات ہیں جو ہماری درست سمت کا تعین کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے معاشی ماہرین سے اگر بات کی جائے تو وہ پہلا نسخہ یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان کو اپنا امپورٹ بل کم کرنا ہوگا اور ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا، اب یہ ممکن کیسے ہوگا اس کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی ہوگی، ویژن کیساتھ آگے بڑھا جائے اور وسائل کا رخ زراعت سمیت دیگر اہم شعبوں کی طرف موڑا جائے تو بہت کچھ بہتر ہوسکتاہے اور ماضی قریب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
نیشنل ایگری کلچر ریسرچ سینٹر نے ایک خاص قسم کا کیلا پیدا کیاہے جو تیس دن تک خراب نہیں ہو تا اور یہ سائز میں بھی بڑا ہے، یہ کیلا سندھ میں کاشت کیا جاتا ہے اور دوست ملک ترکی کو برآمد بھی کیاگیا، ہمیں کیلے کی اس قسم کو دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پہنچانا ہوگا تاکہ پھلوں کی برآمد میں اضافہ ہو سکے۔
اسی طرح پاکستان کے زرعی ماہرین نے گرین سپر رائس کے نام سے ایک خاص قسم کا چاول متعارف کرایا ہے جس کی پیداوار 120 من فی ایکٹر ہے، یہ چاول سائز اور ذائقے کے لحاظ سے بھی منفرد ہے اس کا شمار دنیا کے بہترین چاولوں میں ہوتا ہے۔
اگر زیتون کی بات کی جائے تو بلوچستان، خطہ پھوٹوہار اور خیبرپختونخوا کی زمین زیتون کی کاشت کاری کے لیے انتہائی موزوں ہے، بلوچستان کے زیتون کا شمار دنیا کی بہترین کوالٹی والےزیتون میں ہوتا ہے لیکن اس کی برآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں لہسن کی خاص قسم ، جی ون گارلیک ، بھی اپنی مثال آپ ہے ،اس کا سائز اور ذائقہ بہت منفرد ہے اور یہ چین کو ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے لیکن کسانوں کو دیگر منڈیوں تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے،اسی طرح اگر مقامی صنعت کی بات کریں تو پاکستان کے قالین کی دنیا بھر میں مانگ ہے مگر ہم ایران سے قالین درآمد کر رہے ہیں اور توجہ نہ ہونے سے ہماری اپنی صنعت تباہ ہو رہی ہے،پاکستان کے قالین امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں جبکہ دیگر دستکاریوں کو بھی خوب پسند کیاجاتاہے تاہم یہ اشیاء اب وہاں نہیں پہنچ رہیں۔
پاکستان کی چھوٹی صنعتوں کو بھی بھرپور انداز میں بحال کیا جانا چاہیئے اور اس مقصد کے لیے گوجرانولہ اور سیالکوٹ سمیت تمام شہریوں میں ایک سے زائد صنعتی زونز بنا کر مفت بجلی فراہم کی جائے۔
ایک ٹرم جیوگرافیکل انڈیکشن استعمال کی جاتی ہے جس کا مقصد مخصوص جغرافیائی خطوں سے پیدا ہونے والی مصنوعات کی حفاظت اور فروغ کے لیے اہم اوزار کے طور پر کام کیا جائے، جیوگرافیکل انڈیکشن یعنی (تحفظ اور رجسٹریشن) ایکٹ مارچ 2020 میں نافذ کیا گیا تھا، وفاقی حکومت نے تقریباً 200 GIs کو مطلع کیا ہے۔