(لاہور نیوز) صوبائی دارالحکومت کے باسیوں کو سموگ سے بچانے کے لیے بات قلیل المدتی اقدامات سے آگے نہ بڑھ سکی۔
2017 ء کے بعد سے تو سموگ نے جیسے لاہور میں مستقل بنیادوں پر ہی ڈیرے ڈال لیے ہیں، ہر سال کے اختتامی مہینوں کے دوران یہ عفریت سر اُٹھاتا ہے اور شہریوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
رواں سال بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ لاہور میں اوسط ایئرکوالٹی انڈیکس 400 کی سطح سے تجاوز کرنا معمول بن چکا ہے، امر واقع یہ ہے کہ سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف قلیل المدتی اقدامات پر زور دیا جارہا ہے۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ شہر کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکنے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہوں گے۔
تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز کی بندش جیسے اقدامات سے صورت حال میں وقتی طور پر تو بہتری آجاتی ہے لیکن اِن کا دیرپا فائدہ نہیں ہوتا اگرچہ حکام کا دعویٰ مختلف ہے۔
ضروری ہے کہ اِس حوالے سے عوامی سطح پر بھی شعور پیدا کیا جائے۔