(ویب ڈیسک)ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچے تیزی سے ذیابیطس کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ویسے تو اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جب خون میں شوگر یا شکر کی مقدار بڑھ جائے تو پھر یہ ایک مرض کی شکل اختیار کرجاتی ہے جسے ذیابیطس یا شوگر کہتے ہیں۔
بچوں اور بڑوں کی ذیابیطس بالکل الگ الگ ہوتی ہیں۔ یوں سمجھیں کہ بچوں کی ذیابیطس ایک الگ قسم کی بیماری ہے۔ بچوں میں ذیابیطس کی کم از کم تین اقسام دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جو جینیاتی ذیابیطس کہلاتی ہے۔ اس قسم میں بچے کے جینز میں کوئی خرابی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اسے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ایک دو ماہ کے شیرخوار بچوں کو بھی جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے ذیابیطس ہوجاتی ہے۔
اس جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے بچوں کو کئی طرح کے سنڈروم ( بیماریاں) اور دماغی امراض بھی ہوسکتے ہیں اور جینز کی یہی خرابی بچوں کو ذیابیطس میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے ہونے والی ذیابیطس کی کچھ اقسام کا علاج عام سی دواؤں سے ہوسکتا ہے۔ اگر ایک سال یا چھے ماہ سے کم عمر بچے کو ذیابیطس ہو تو اس کے لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ایسے بچے کی جینیٹک ٹیسٹنگ یعنی جینیاتی تشخیص کرائی جائے، پاکستان میں یہ سہولت دست یاب نہیں ہے مگر بیرون ملک بآسانی یہ تشخیص ہوجاتی ہے اور بلامعاوضہ بھی ہوجاتی ہے، ہم جینیٹک ٹیسٹ باہر بھجواتے ہیں جس سے یہ پتا چل جاتا ہے بچے کو ذیابیطس کس جینیاتی خرابی کی وجہ سے ہوئی ہے، اس تشخیص کے بعد ذیابیطس کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن کا دواؤں سے علاج ہوسکتا ہے، بقیہ اقسام کا دواؤں سے علاج ممکن نہیں۔
ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ٹائپ ون ذیابیطس میں چونکہ بچوں کے جسم میں انسولین ہی موجود نہیں ہوتی تو انہیں وہ دوائیں نہیں دی جاسکتیں جو عام طور پر ذیابیطس میں دی جاتی ہیں۔
بڑوں کو جو ذیابیطس لاحق ہوتی ہے جسے ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا جاتا ہے، اس میں انسولین جسم میں موجود ہوتی ہے مگر وہ کام نہیں کررہی ہوتی۔ انسولین کی مثال ایسے سمجھ لیں کہ یہ چابی ہے جو دروازہ کھولتی ہے اور شوگر خلیے کے اندر چلی جاتی ہے جس کی جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ چابی نہیں ہوگی تو دروازہ نہیں کھلے گا اور باہر شوگر خون کی نالیوں میں گھومتی رہے گی اور بالآخر نکلنا شروع ہوجائے گی۔ تو بڑوں میں انسولین موجود ہوتی ہے مگر ان کی تالے کی چابی گڑبڑ کررہی ہوتی ہے اور بچوں میں انسولین ہوتی ہی نہیں ہے تو سمجھیں وہ چابی ہی غائب ہوگئی۔
اس لیے بچوں میں ذیابیطس کا سوائے انسولین کے انجیکشن کے دنیا بھر میں کوئی علاج نہیں ہے، جب کہ بڑوں میں ہم تالے کی اس چابی کو ٹھیک کرنے کے لیے دوائیں دے سکتے ہیں کہ وہ کام شروع کردے۔ تو بڑوں اور بچوں کی ذیا بیطس میں یہ بنیادی فرق ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے لاحق ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے، یہ موروثی طور پر ہوسکتی ہے، پھر طرز زندگی، خوراک اور جسمانی سرگرمی یعنی ورزش پر بھی اس کا انحصار ہوتا ہے۔ پہلے اس میں جسم کے اندر انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی ہے جو بعدازاں ذیابیطس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
