لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، بری ہونیوالے افراد کو کلیئر کیریکٹر سرٹیفکیٹ ایشو ہوگا

لاہور: (محمد اشفاق سے) لاہور ہائیکورٹ نے بری ہونے والے افراد کے کریکٹر سرٹیفکیٹ سمیت سرکاری دستاویزات میں مقدمے کا ذکر کرنے سے روک دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عبہر گل خان نے شہری عبد الرحمٰن کی درخواست پر چھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے کے مطابق عدالت نے بریت کے باوجود سی آر او میں ایف آئی آر کے ریکارڈ کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔
جسٹس عبہر گل خان نے فیصلے میں لکھا کہ جب کوئی ملزم کسی کیس سے بری ہوتا ہے تو قانون کی نظر میں اس کا مطلب بریت ہی ہوتا ہے ،بریت کے باوجود کسی بھی سرکاری دستاویزات میں اس ایف آئی آر کا ذکر کرنا غیر ضروری ہے، بریت کے باوجود ریکارڈ ظاہر کرنا انسانی وقار کے خلاف ہے بریت کے باوجود ریکارڈ ظاہر کرنا ان شہریوں سے غیر منصفانہ ہے جو عدالتی پراسس کے ذریعے بری ہوئے۔
فیصلہ میں کہاکہ درخواست گزار پولیس کی جانب سے کلیئر کیریکٹر سرٹیفکیٹ کا حق دار ہے ہوم سیکرٹری درخواست گزار کو اس کے موجودہ سٹیٹس کے تحت کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کریں، کیریکٹر سرٹیفکیٹ میں کسی ایف آئی آر کا ذکر نہ ہو جس میں ملزم بری ہوچکا ہے۔
فیصلہ کے مطابق درخواست گزار پر 2024 ء میں لاہور کے تھانہ نواں کوٹ میں پتنگ بازی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے درخواست گزار کو مقدمے سے بری کردیا، درخواست گزار نے انگلینڈ سفر کرنے کے لیے پولیس کیریکٹر سرٹیفکیٹ کے حصول کی درخواست دی لیکن درخواست گزار کی بریت کے باوجود کیریکٹر سرٹیفکیٹ میں کریمنل ہسٹری ظاہر کی گئی ۔
درخواست گزار نے اس عمل کے خلاف ہوم سیکرٹری کو درخواست دی، ہوم سیکرٹری نے درخواست پر فیصلہ نہیں کیا، درخواست گزار نے ہوم سیکرٹری کی جانب سے فیصلہ نہ کرنے پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا عدالتی حکم پر ہوم سیکرٹری نے درخواست گزار کی درخواست پر فیصلہ کیا۔
جسٹس عبہر گل خان نے فیصلے میں کہا کہ ہوم سیکرٹری نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پولیس رولز کے تحت ایف آئی اے کا ریکارڈ 60برس تک رکھا جاتا ہے، ہوم سیکرٹری نے لکھا کہ ایف آئی آر ڈیلیٹ نہیں ہوگی تاہم اگر کوئی بری ہوتا ہے تو سٹیٹیس اپڈیٹ ہوگا۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ پولیس ترمیمی رولز کے تحت ایف آئی آر کو ڈیجیٹل طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے سرکاری وکیل نے بتایا کہ اگر ملزم عدالت سے بری بھی ہو جائے تو بھی کریمنل ریکارڈ ختم نہیں کیا جاسکتا جس پر عدالت نے قرار دیاکہ یہ اہم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انتظامی ادراے ہیں جو اپنے اندرونی ریکارڈ کے لیے تمام ریکارڈ محفوظ رکھتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ ریکارڈ قانونی استعمال کیے لیے ضرور رکھیں لیکن اس سے کسی کے بنیادی حقوق مجروح نہیں ہونے چاہئیں، ایف آئی ار کو ڈیجیٹیلی محفوظ بنانا قانون کے تحت جائز ہے، اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ریکارڈ کسی بری ہونے والے فرد کے خلاف استعمال نہیں ہوگا، موجودہ کیس میں درخواست گزار کا اعتراض ہے کہ اسکے موجودہ سٹیٹس کے تحت کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔