(لاہور نیوز) گزشتہ تین برس میں پنجاب کی حدود میں جنسی زیادتی کے محض 5.33 فیصد ملزموں کو سزا مل سکی۔
دنیا نیوز کو حاصل رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں گینگ ریپ کے محض 10.66 فیصد جبکہ گینگ ریپ اور دوران ریپ قتل کے 35.33 فیصد ملزمان کو سزا سنائی جا سکی۔
پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں ریپ کیسز میں صرف پانچ فیصد ملزمان کو سزائیں ہوئیں، پولیس کی جانب سے 2022 میں 3642 ریپ کے مقدمات درج کیے گئے، 2880 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں سے صرف 220 ملزمان کو سزائیں ہو سکیں جبکہ دیگر ملزمان بری ہو گئے۔
2023 میں ریپ کے 4152 مقدمات درج ہوئے، 2898 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں سے صرف 196ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔
اسی طرح 2024 کے پہلے 10 ماہ میں 3678 ریپ کے مقدمات درج ہوئے جن میں 2498 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 2921 ملزمان بری جبکہ صرف 178 ملزمان کو سزائیں ہو سکیں تاہم ریپ کیسز کے صرف چھ فیصد ملزمان کو ہی سزا ہو سکی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گینگ ریپ کے 1365 مقدمات درج کیے گئے، مجموعی طور پر گینگ ریپ کے 1959 ملزمان گرفتار کیے گئے جن میں سے صرف 37 ملزمان کو سزائیں ہوئیں جبکہ 2022 میں گینگ ریپ کے 20 فیصد، 2023 میں سات فیصد جبکہ سال 2024 میں گینگ ریپ کے صرف پانچ فیصد ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔
گزشتہ تین برسوں میں ریپ اور گینگ ریپ کے دوران قتل کے 16 مقدمات درج ہوئے، پولیس نے 152 ملزمان کو گرفتار کیا تاہم صرف 8 ملزمان کو سزا مل سکی۔
اس حوالے سے پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ پراسکیوشن نظام کی خامیاں ضرور ہیں جن کو درست کرنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم زیادتی کے مقدمات کی پیروی کرنے والے پراسکیوٹرز کی سپیشل ٹریننگ بھی کروائی جا رہی ہے۔
پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے مزید کہا کہ ملزمان کے بری ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملزمان گواہان اور مدعی کو مینج کر لیتے ہیں اگر مدعی اور گواہان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تو زیادتی کے مقدمات میں صلح کی بنیادی پر ملزمان بری نہیں ہو سکتے۔
قانونی ماہر برہان معظم کا کہنا تھا کہ تفتیشی نظام میں کمزوریوں کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے، زیادتی کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے تمام متعلقہ محکموں کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔