اپ ڈیٹس
  • 329.00 انڈے فی درجن
  • 411.00 زندہ مرغی
  • 595.00 گوشت مرغی
  • پولٹری
  • چینی یوآن قیمت خرید: 39.45 قیمت فروخت : 39.52
  • امریکن ڈالر قیمت خرید: 278.35 قیمت فروخت : 278.85
  • یورو قیمت خرید: 311.41 قیمت فروخت : 311.97
  • برطانوی پاؤنڈ قیمت خرید: 367.19 قیمت فروخت : 367.85
  • آسٹریلیا ڈالر قیمت خرید: 188.84 قیمت فروخت : 189.18
  • کینیڈا ڈالر قیمت خرید: 206.50 قیمت فروخت : 206.87
  • جاپانی ین قیمت خرید: 1.92 قیمت فروخت : 1.93
  • سعودی ریال قیمت خرید: 74.19 قیمت فروخت : 74.32
  • اماراتی درہم قیمت خرید: 76.31 قیمت فروخت : 76.45
  • کویتی دینار قیمت خرید: 911.31 قیمت فروخت : 912.95
  • کرنسی مارکیٹ
  • تولہ: 262700 دس گرام : 225200
  • 24 سونا قیراط
  • تولہ: 240807 دس گرام : 206432
  • 22 سونا قیراط
  • تولہ: 3116 دس گرام : 2674
  • چاندی تیزابی
  • صرافہ بازار
شہرکی خبریں

سال 2024: پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر

31 Dec 2024
31 Dec 2024

(محمد بلال) 2024 کا آج آخری روز ہے ، کچھ گھنٹوں بعد یہ سال اختتام پذیر ہو جائے گا ، گزشتہ کئی سالوں کی طرح وطن عزیز کیلئے یہ سال بھی مختلف چیلنجز سے بھرپور رہا۔

اس سال کا آغاز بھی سیاسی ہنگاموں اور ہلچل کے ساتھ ہوا اب اس کےاختتام کا منظر نامہ بھی کچھ مختلف نہیں کیونکہ ملک میں ہونے والے 8 فروری کے عام انتخابات سیاسی منظرنامے پر اس سال کی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

سال 2024 اسلام آباد سمیت پورے ملک میں پہلے سے پھیلی سیاسی بے یقینی کی کیفیت، خاص طور پر عام انتخابات کی صورتحال کے حوالے سے شروع ہوا، پی ٹی آئی کی عام انتخابات میں شرکت کے بارے میں شکوک و شبہات، انتخابات میں کئی ماہ کی تاخیر اور غیریقینی صورتحال نے ماحول کو مزید کشیدہ بنایا ہوا تھا۔

پی ٹی آئی سے انتخابی نشان کی واپسی

پاکستان تحریک انصاف کو ایک بڑا دھچکا 13 جنوری کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لگا جس میں اعلیٰ عدالت نے الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کے انتخابی نشان "بلے” سے محروم کرگیا جس سے پارٹی کو انتخابی میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بغیر بلے کے نشان کے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں مختلف نشانوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینا پڑا جس نے ان کی انتخابی مہم کو شدید متاثر کیا۔

عام انتخابات

8 فروری 2024 کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات منعقد ہوئے، انتخابات کے دن بھی سیاسی افراتفری اور سکیورٹی کے مسائل مزید تشویش کا باعث بنے رہے، اس کے بعد ملک بھر میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش نے عوامی غم و غصے کو مزید بڑھاوا دیا۔

عام انتخابات کے غیر سرکاری نتائج میں تاخیر اور سست روی نے دھاندلی کے الزامات کو جنم دیا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر انتخابات کی ساکھ پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔

حکومت کی تشکیل

مذکورہ نتائج کے بعد کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی جس کے باعث سیاسی جماعتوں کے درمیان کئی ہفتوں کی مشاورت کے بعد ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل پائی۔

8فروری کے عام انتخابات میں کامیاب امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد پی ٹی آئی کی تھی، لیکن چونکہ اس جماعت کو سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا، لہٰذا مخلوط حکومت بنانے کیلیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مل کر ایک اتحاد بنایا۔

مخصوص نشستوں کا فیصلہ

12جولائی کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم نشستوں کے لیے اہل قرار دیا۔

یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی فتح اور وزیراعظم شہباز شریف کے حکمران اتحاد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا جس سے تحریک انصاف ممکنہ طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزائیں

سال 2024کے آغاز میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدالت کی جانب سے مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔

30جنوری کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ’’سائفر کیس‘‘ میں 10 سال قید کی سزا، 31 جنوری کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14 سال کی سزا اور 3فروری کو "غیر شرعی نکاح” کے مقدمے میں7،7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جولائی میں ٹرائل کورٹ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو متعدد مقدمات میں بری کردیا لیکن ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ مزید نئے مقدمات کے تحت جاری رہا۔

پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ

حکومت نے عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کو مئی2023 کے پُرتشدد واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف عوامی اور فوجی املاک پر حملوں کے الزامات کے تحت مزید مقدمات قائم کیے۔

فیض حمید کی گرفتاری

اس کے علاوہ 12اگست کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل (ر) فیض حمید کے مبینہ طور پر 9مئی کے حملے کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرنے کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

فیض حمید پر فرد جرم

10دسمبر کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے تحت باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی۔

یہ اقدام پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کیا گیا اور الزامات میں مبینہ طور پر زمین پر قبضے، ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے قیمتی اشیاء کی ضبطی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات شامل ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر نو مئی کے فسادات سمیت بدامنی پیدا کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں جو انہوں نے مبینہ طور پر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کی۔

نیب ترامیم کیس

6ستمبر کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں پچھلے سال کی اکثریتی رائے کے فیصلے کے برعکس حکومت کے حق میں فیصلہ دیا، اس فیصلے نے نیب کے دائرہ اختیار کو محدود کر دیا، جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔

26 ویں آئینی ترمیم

اکتوبر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ملاقاتوں کے نتیجے میں 20 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔

مذکورہ 26ویں ترمیم پارلیمنٹ کو تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے انتخاب کا اختیار دیتی ہے اور چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات کو محدود کرتی ہے، یہ ترمیم پاکستان کی عدالتی نظام کے لیے ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے۔

26اکتوبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے جو ایک خاص پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے تحت منتخب کیے جانے والے پہلے چیف جسٹس ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف جو حکومت کی مرکزی سیاسی مخالف جماعت ہے نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کو غیر آئینی قرار دیا اور عدالتی اصلاحات کو چیلنج کرنے کے لیے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔

احتجاجوں سے بھرپور سال

اگر سال 2024کو ’’احتجاج کا سال‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ پورا سال احتجاجی مظاہروں کے دوران گزرا جو زیادہ تر پی ٹی آئی کی قیادت میں کیے گئے۔

پی ٹی آئی نے اپنے چار بنیادی مطالبات کے تحت ان مظاہروں کا انعقاد کیا ان مطالبات میں کہا گیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کیا جائے، جمہوریت اور آئین کی ’’بحالی‘‘ عوامی مینڈیٹ کی واپسی کے علاوہ ’’بے گناہ سیاسی‘‘ قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

عام انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے مختلف سیاسی جماعتوں میں عدم اطمینان کا احساس پیدا کیا، جس کے نتیجے میں مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، جنہیں "اینٹی ریگنگ” مظاہرے کہا گیا۔

پی ٹی آئی کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) جو پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی رہ چکی ہے اور دیگر کئی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے الزامات لگائے کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔

سروسز چیفس کی مدت ملازمت کا تعین

رواں سال نومبر کے شروع میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5 سال کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کیا گیا ۔

بعد ازاں قومی اسمبلی و سینیٹ سے آرمی چیف، ایئرچیف اور نیول چیف کی مدت ملازمت 3 سے 5 کرنے کے حوالے سے منظور ہونے والے بل پر قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے دستخط کردیئے تھے۔

انٹرنیٹ کی بندش

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جو معلومات اور سماجی رابطوں کا اہم ذریعہ بھی ہے، آج بھی لاکھوں صارفین کی پہنچ سے باہر ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی تنظیموں کی جانب سے فوری بحالی کی اپیلوں کے باوجود یہ پلیٹ فارم قومی سلامتی کے خدشات کے نام پر فروری 8 کے عام انتخابات سے پہلے ہی بند کردیا گیا تھا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

ایس سی او کانفرنس

ملک میں سیاسی بدامنی اور سکیورٹی کے سنگین مسائل کے باوجود پاکستان نے 23ویں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی کامیاب میزبانی کی۔ کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت ایک اہم سفارتی لمحہ تھی۔

موجودہ معاشی صورتحال میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علاقائی اور عالمی مالیاتی اداروں نے مالی سال 2025 کے لیے پاکستان کی معاشی ترقی کی پیش گوئیوں میں اضافہ کیا ہے، یہ بہتری مسلسل چیلنجز کے باوجود معاشی بحالی کی نشاندہی کرتی ہے۔

آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج 

ماہ ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دی، جو معیشت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے انتہائی ضروری تھا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی جی ڈی پی کی موجودہ مالی سال کے لیے ترقی کی پیش گوئی 3.2 فیصد کی ہے جو اگرچہ حکومتی ہدف سے کم ہے لیکن دیگر عالمی اداروں کی پیش گوئیوں سے بہتر ہے۔

مستقبل میں امیدیں

سال 2025تک ملک کے سماجی، سیاسی، معاشی اور سکیورٹی کے شعبوں میں سال بھر کا عدم استحکام برقرار رہنے کی توقع ہے۔ تاہم بحیثیت قوم ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والا سال سیاسی استحکام اور ترقی سے بھرپور ہوگا جو پاکستان کو روشن مستقبل کی طرف گامزن کرے گا۔

Install our App

آپ کی اس خبر کے متعلق رائے