(لاہور نیوز) وزارت تعلیم کی جانب سے ملک بھر میں 18 ہزار مدارس کو رجسٹرڈ کر لیا گیا۔
مدارس کی رجسٹریشن ایک دیرینہ ضرورت تھی جس کے لیے مختلف ادوار میں مدارس کی انتظامیہ، جید علما اور سیاسی لیڈران سے مشاورت کی گئی، جہاں شروعات میں مدارس انتظامیہ اس رجسٹریشن کے لیے قانونی پیچیدگیوں اور طویل عمل کی وجہ قائل نہ تھی۔
سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد DGRE وزارت تعلیم کے تحت ایک ون ونڈو نظام مرتب کیا گیا جس کے تحت کم و بیش 18000 مدارس رجسٹر ہو چکے ہیں، مدارس بہرحال تعلیمی ادارے ہیں جو کہ وزارت تعلیم کے تحت ہی آتے ہیں نہ کہ وزارت صنعت کے، وزارت صنعت کے تحت رجسٹریشن کا ایک مروجہ طریق کار ہے جو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ایک طویل عمل ہے۔
چناچہ اس مطالبے کی وجہ سے تمام عمل دوبارہ سے شروع ہو گا اور اب تک کی محنت پہ پانی پھر جائے گا۔ کیا یہ سمجھا جائے کے یہ ایک طریقہ کار ہے جس سے مدارس کے رجسٹریشن کے عمل کو رول بیک کرنا مقصود ہے؟
حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے مطالبات مانتے ہوئے دونوں ہاؤس سے بل کو پاس کروایا اور اپنی کمٹمنٹ کو پورا کیا، چند قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اگر بل میں کچھ وقت درکار ہے تو اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ اس کو وجہ بنا کے پورا رجسٹریشن کا عمل ہی رول بیک کر دیا جائے۔
تعلیمی ادارے وزارت تعلیم کا موضوع ہیں نہ کہ صنعت کا، اس مطالبے کو ماننے کا مقصد ہے کہ کل کو کوئی بھی کسی پیشہ کو کسی بھی وجہ سے کسی اور وزارت کے تحت کرنے کا مطالبہ کر دے۔ نظام ملک کچھ مروجہ اصول اور ضوابط کے ماتحت ہوتا ہے نہ کہ خواہشات کے۔
وازارت تعلیم اور DGRE اس عمل کو مدارس کے لیے انتہائی سہولت کار بنا چکے ہیں اور ایک مہم چلا رہے ہیں جو کہ ہر میڈیم کا استعمال کر رہی ہے اور انتہائی اسان ون ونڈو آپریشن ہے۔