علامہ اقبال کا مقبرہ
علامہ اقبال کا مقبرہ، جو بادشاہی مسجد سے جنوب مشرق کی طرف حضوری باغ میں مقیم ہے۔
یہ جگہ محب وطن اور ادب سے شغف رکھنے والےلوگوں کے لیئے ایک نہایت ہی پرکشش مقام ہے۔ کہتے ہیں لوگ چلے جاتے ہیں لیکن ان کا کام رہ جاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ کام اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ ایسی عظیم الشان عمارتیں اس عظمت کی گواہ بن جاتی ہیں۔ علامہ اقبال کا مقبرہ بھی ایک ایسی ہی عمارت کی مثال ہے۔ یہ عمارت افغانستان کی طرف سے تحفے میں دیئے گئے مہنگے ترین سرخ پتھر سے تعمیر گی گئی۔ حیدر آباد کے ایک مشہور و معروف آرکیٹیک نے اس کا آرکیٹیکچر مغلیہ رواج کے خلاف جا کر افغانی طرز پر رکھا۔
مقبرہ جہانگیر
جہانگیرنے مرتے وقت یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اس کی قبر کھلی جگہ پر بنائی جائے اس کی قبر پر بارش اور شبنم کے قطرے گرتے رہیں۔ جہانگیر نے یہ بھی کہا کہ اس کی قبر ملکہ نور جہاں کی قبر کے پاس بنائی جائے چنانچہ جہانگیر کی خواہش کے مطابق اس کی لاش راوی کے کنارے نور جہاں کے باغ دلکشاءمیں دفن کی گئی کی
مقبرہ جہانگیر دریائے راوی لاہور کے کنارے شاہدرہ کے ایک باغ دلکشا میں واقع ہے۔جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہاں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔یہ مقبرہ پاکستان میں مغلوں کی سب سے حسین یادگار مانا جاتا ہے۔مقبرے کے چاروں کونوں پر حسین مینار نصب ہیں۔قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔ دائیں بائیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں۔
سکھ عہد میں اس عمارت کو بہت نقصان پہنچایا گیا۔سکھ اس عمارت میں سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا سہ نشین اکھاڑ کر امرتسر لے گئے۔اسی طرح عمارت کے ستونوں اور آرائش میں استعمال کئے گئے قیمتی جواہرات بھی نکال لے گئے،تاہم اس سب کے باوجود یہ عمارت آج بھی قابل دید ہے۔ مقبرے کا وہ حصہ جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہے پر ایک بلند چبوترا بنایا گیا ہے۔یہاں اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں،جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔مقبرہ جہانگیر کی حدود میں نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جو آج بھی موجود ہے۔
اس مقبرہ میں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی کی ۔ اس لئے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کئی گئیں اس کی تعمیر میں دس سال کا عرصہ لگا اور دس لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔
مقبرہ نور جہاں
نور جہاں لاہور میں جہاں وہ اپنے خاوند کی وفات کے بعد مرتے دم تک اقامت گزیں رہیں۔ 29 شوال 1055ھ کو انتقال کرگئیں اور اپنے بھائی یمین الدولہ ، آصف جاہ کے مقبرے کے پہلو میں دفن ہوئیں۔
مقبرے کے بلند چبوترے اور قبر کی اندر کی عمارت میں انواع و اقسام کے رنگین پتھروں سے پرچین کاری کی گئی ہے۔ عمارت کے اندر جو فرش ہے اس میں قسم قسم کے خوبصورت پتھر، گرہ بندی کرکے لگائے گئے ہیں۔ گنبد کے گرد جو مثمن چبوترہ ہے اس کا قطر 60 گز ہے۔ اس کے چاروں طرف چار حوض ہیں جن میں سے ہر ایک کا طول نوع اور عرض ساڑھے سات گز ہے۔ مقبرہ کی شرقی طرف مقبرہ جہانگیر ہے۔ مغرب میں ایک مسجد ہے اور اس کے مشرق میں ایک ایسی خوبصورت عمارت ہے جو مسجد تو نہیں ہے لیکن بالکل مسجد کی طرز پر بنی ہوئی ہے۔ جنوب کی طرف ایک تہ خانہ ہے جس میں ایک تو سیڑھیاں اور راستہ نیچے جانے کا ہے اور شمال جنوب اور مشرق کی طرف سے جالیوں کے ذریعے بیرونی سطح سے روشنی آتی ہے۔ اصل قبریں اسی تہ خانے کے اندر ہیں۔ جب آصف جاہ کے مقبرہ کا پتھر اتارا گیا تو بے دردوں نے اس مقبرے کی طرف بھی رخ کیا۔ سنگ مرمر، سنگ سرخ، سنگ ابریںسب اتار لیا۔
مقبرہ آصف جاہ
اصلی نام مرزا ابوالحسن تھا اور جس کو مختلف مراتب و مناصب سے ترقی دے کر جہانگیر نے 1035ھ میں لاہور کا گورنر بنایا اور آصف جاہ کا خطاب دیا۔ جہانگیر کا انتقال شاہ جہاں کے ابتدائی عہد میں آصف جاہ لاہور اور ملتان دونوں صوبوں کا گورنر تھا۔ 1051ھ میں آصف جاہ کا انتقال ہوگیا۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ لاش مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب دفن کی جائے۔ مقبرہ کے چاروں طرف ایک بلند چار دیواری کے باغ تعمیر کیا جائے اور تربت کا گنبد بلند اور عالی شان ہو جو اس کے نام اور کام کی طرح یادگار رہے۔ مقبرے کے آٹھ دروازے اور آٹھ دہلیزیں اور باہر مرغولوں پر ہر جگہ سنگ سرخ اور اس کے دورویہ کانسی کا کام تھا۔ دونوں طرف اوپر جانے کے لئے 26-26 سیڑھیاں ہیں۔ ڈیوڑھی سے مقبرہ تک دورویہ پختہ حشتی فرش اور درمیان میں چھوٹی سی نہر تھی جو مقبرے کے گرد چاروں طرف چھوٹی چھوٹی شاخوں میں چکر لگاتی تھی۔ مقبرے میں سونے چاندی کی قتدیلیں اور جھاڑ فانوس اور فرش فروشن جہانگیر کے مقبرے سے کم نہ تھے۔
رنجیت سنگھ کا دور آیا ۔ مہاراجہ کے حکم سے اس مقبرہ عالی شان کا پتھر بھی اتار لیا گیا۔ مقبرے کے اندر سنگ مرمر کا جو فرش تھا۔ اس کو بھی اکھاڑ کر شہر میں لے آئے۔ صرف قبر کا تعویذ سلامت رہ گیا۔
سمادھ رنجیت سنگھ
12اپریل 1801ء میں تمام پنجاب پر سکھ سرکار بن گئی اور پنجاب پر سکھ حکومت رنجیت سنگھ کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس وقت پنجاب کی حدود ستلج سے جہلم تک کے وسیع علاقے تک پھیل چکی تھیں
1839ء میں رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو 1844ء سے 1849ء تک کے عرصہ میں انگریز پورے پنجاب پر مکمل قبضہ حاصل کرچکے تھے. رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی عظیم الشان سمادھ کی عمارت کی بنیاد اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے رکھی۔ سمادھ کی تعمیر کیلئے سنگ مر مر اور دوسرا قیمتی پتھر ہندوستان کی مختلف جگہوں سے منگوایا گیا۔ کھڑک سنگھ کی ایک برس کے اندر موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد سمادھ کی تعمیر مہاراجہ شیرسنگھ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اس دوران سکھ سرداروں کی انگریزوں کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ جس کے باعث تعمیر کا سلسلہ مسلسل نہ رہا۔ اس عمارت کی تعمیر انگریز سرکار کے عہد میں ہوئی۔ سمادھ کی عمارت جوکہ بادشاہی مسجد اور پرانے روشنائی دروازے کے ساتھ ملحقہ ہے۔
عمارت میں داخل ہوتے ہی گرو ارجن دیو جی کی سمادھ اور گردوارہ ہے جس کے باعث یہ تمام جگہ ڈیرہ صاحب کہلاتی ہے
قلعہ کی جانب سے آتی گھاٹی کی مغربی سیدھ میں سمادھ کا داخلی دروازہ ہے۔ دروازے سے بائیں جانب گرو ارجن کی سمادھ ہے۔ جس کے ساتھ کبھی پرانے گردوارے کی عمارت بھی تھی۔ اس تمام جگہ کو ازسرنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس جگہ سے مغربی سیدھ میں زمینی منزل پر کمروں میں سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ ان سے اوپر کی منزل پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے۔
سمادھ کے اندر آتے ہی ایک بار شیش محل قلعہ لاہور کا گمان ہوتا ہے۔ سقف اور دیواروں پر شیشے کا خوبصورت کام دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کی شمال سیدھ میں گرنتھ پڑھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایشیائی مہنگا فانوس دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کے عین وسط میں خاص رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے جس کے چاروں جانب ایشیائی نفیس سنگ مر مر کے چوکھٹے ہیں۔
بدھو کا مقبرہ
جہانگیر کے زمانے میں لاہور کا ایک کمہار سدھو نام اس مقام پر جہاں بدھو کا آوا مشہور ہے اور جو سڑک شالیمار باغ کے کنارے واقع ہے چھوٹا سا بھٹہ بنا کر اینٹیں پکانے کا کام کیا کرتا تھا۔ جب بادشاہ شاہجہاں کے زمانے میں شالامار باغ کی تعمیر شروع ہوئی تو سدھو کے بیٹے بدھو کو اینٹیں بہم پہنچانے کا حکم ملا۔ شالامار باغ کی چار دیواری اور اس کی عمارات کے لیے لاکھوں کروڑوں اینٹوں کی کھپت تھی اس لیے بھٹے یعنی آوے کی حدود بہت دور تک پھیل گئیں اور بدھو اب بدھو کمہار نہ رہا بلکہ شاہی خشت پز کہلانے لگا اور امراء اور حاکم صوبہ تک اس کی رسائی ہو گئی۔
مشہور یہی ہے کہ یہ قبر بدھو کی ہے جس کے نام پر بدھو کا آوا ہے۔ اسی مقبرے کے اندر دو قبریں ہیں۔ غربی جانب جو قبر ہے وہ ذرا چھوٹی ہے اور مشرقی جانب کی قبر ذرا بلند ہے۔ مقبرہ کی عمارت شاہجہانی عمارتوں کا نمونہ ہے۔ گنبد پر منقش چینی کا کام ہے جو ہر چند کہ بہت کچھ مٹ گیا ہے مگر ابھی اس کے اثرات باقی ہیں۔ مقبرے کا بیرونی چبوترہ پندرہ پندرہ قدم مربع ہے' اکثر جگہوں سے شکستہ ہے۔ ایک بہت بڑا کریر کا درخت چبوترے کے غربی گوشے میں موجود ہے۔ اس گنبد سے قریباً پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر مشرق کی طرف اس زمانے کا ایک کنواں شکستہ حالت میں ہے۔ مقبرے کا دروازہ شمال یعنی شہلا باغ کے رخ پر تھا۔ یہاں ایک طویل چبوترے کے آثار اب تک نظر آ رہے ہیں۔
مقبرہ زیب النساء
جہاں آج لاہور شہر کا علاقہ نواں کوٹ ہے یہاں شہزادی زیب النساء نے ایک نہایت خوبصورت باغ بنوایا تھا اس کے متصل شاندار اور پرشکوہ عمارت بھی تعمیر کرائیں اور مرکز کو اپنے مقبرے کے لیے مختص کر دیا۔1669ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو انہیں یہاں دفن کیا گیا۔
ایک زمانے میں اس کا لاہور کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار ہوتا تھا۔ قیمتی پتھروں، سنگ مرمر کی گلکاریوں، آرائشی محرابوں، راہداریوں، احاطوں، شاندار گنبد اور سرسبز و شاداب باغات سے آراستہ یہ مقبرہ اپنی مثال آپ تھا اس پر پہلی آفت رنجیت سنگھ کے زمانے میں نازل ہوئی جس نے نہ صرف اس پرشکوہ مقبرے سے تمام قیمتی سازو سامان اتروا لیا بلکہ قیمتی پتھر تک ادھیڑ لیے اور ان سے حضوری باغ میں اپنے لیے عمارت تعمیر کروائی۔
مقبرہ قطب الدین ایبک
انارکلی بازار سے ہسپتال روڈ کی جانب جانے والی سڑک کو ایبک روڈ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ سڑک چھوٹی سی ہے لیکن یہاں پر ایک بہت بڑا بادشاہ آسودہ خاک ہے۔ یہ ہندوستان میں پہلا باقاعدہ مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک ہے۔ دہلی کا معروف قطب مینار اسی ذی شان بادشاہ کی یادگار ہے۔ محل میں ایبک، چوگان (پولو) کھیلا کرتا تھا کیوں کہ وہ اس کھیل کا بہت شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے سے گر پڑا اور یہی واقعہ اس کی موت کا سبب بنا۔
سلطان قطب الدین ایبک نے 1210ء بمطابق 607ھ میں وفات پائی اور اسے لاہور ہی میں دفن کردیا گیا ۔ 1215ء میں سلطان شمس الدین التمش لاہور آیا تو اس نے سلطان قطب الدین ایبک کا شاندار مقبرہ تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا، چناں چہ اس عظیم بادشاہ کی شایان شان مقبرے کی تعمیر کی گئی۔ تاہم یہ امتداد زمانہ کی نذر ہوگیا۔ دور مغلیہ میں شہر کی توسیع ہوگئی تو مقبرہ اور باغ اجڑنے لگا۔ مقبرے سے متصل محلے کا نام محلہ قطب غوری ہی رہا۔ انگریزی عہد میں مقبرے کے گردونواح میں آبادی ہونے لگی اور بالاخر قبر پر بھی مکان تعمیر ہوگیا۔ اس مکان میں ایک ہندووکیل رہائش پذیر تھا تاہم انگریز سرکار نے ایک مہربانی یہ کی کہ قبر کی مرمت کروادی اور میونسپل کمیٹی نے بازار اور گلی کانام ایبک سٹریٹ رکھ کر اس کا نام مٹنے سے بچا لیا، ورنہ شاید لوگ اس نام اور قبر کے محل وقوع سے ہی ناآشنا رہتے اور یہ گوہر نایاب وقت کی خاک میں گم ہوجاتا۔ مقبرے کے آثار دیکھنے کے لیے کھدائی کی گئی لیکن کوئی واضح آثار دریافت نہ ہوسکے۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ قبر اس جگہ پر موجود تھی تو اس کے بعد مقبرے کی تعمیر کے سلسلہ میں اقدامات کیے.
تعمیر کے کام کا آغاز 1968ء میں ہوا اور جولائی 1979ء میں اسے مکمل کرلیا گیا ۔ مقبرے کی تعمیر سنگ مرمر اور پیلے پتھر سے کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں کوشش کی گئی ہے کہ اسے اسی انداز میں تعمیر کیا جائے جو انداز تعمیر اس دور میں مسلمانوں سے مخصوص تھا۔ مقبرے کا گنبد بھی منفرد انداز کا ہے۔ گنبد کے وسط میں فانوس لگا ہواہے۔ مقبرہ چوکور ہے اور چاروں طرف سنگ مرمر کی جالیاں ہیں۔ فرش اوردیواریں بھی سنگ مرمر کی ہیں جب کہ چھت پر پلستر کیا گیا ہے۔
مسجد وزیر خان
دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے چند قدم آگے چلیں تو چوک وزیر خان آجاتا ہے جہاں مسجد وزیر خان عہد مغلیہ کا شاندار تعمیراتی شاہکار آنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ مسجد وزیر خان کی ڈیوڑھی کی مشرقی جانب سید صوفؒ کا مزار ہے جبکہ مسجد کے صحن میں محمد اسحاق گازرونیؒ محو خواب ہیں۔
مسجد وزیر خان لاہور کی قدیم عمارات میں ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی تعمیراتی عظمت ,پائیداری، اور نقش و نگار کی بدولت ماہرین فن تعمیرات اس مسجد کو خاص درجہ دیتے ہیں۔
مسجد وزیر خان کا صدر اپنی حیثیت میں ایک مکمل اور عالی شان فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ داخلی دروازے کی کل چوڑائی 21 فٹ ہے جس کے دونوں اطراف چار چار فٹ دائیں بائیں، چبوترہ ہیں اور ان کے بیچ 13 فٹ چوڑی سیڑھیاں ہیں جن سے داخلی دروازے کے مرکزی حصے میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیوڑھی کے شمال اور جنوب میں تیرہ فٹ چوڑا راستہ ہے۔ ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو مسجد کا وسیع صحن شروع ہوجاتا ہے جس کا فرش کھڑے رخ اینٹوں سے بنا ہے ۔ مسجد کے صحن کے وسط میں واقع وضو کے تالاب کے متوازی شمال اور جنوب کی جانب بھی داخلی دروازے بنائے گئے ہیں۔ صحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں جن کے اندر سیڑھیاں اوپر تک چلی جاتی ہیں۔
مسجد کے صحن کی مغربی جانب ایوان کی عمارت ہے۔ ایوان کے درمیانی حصے کا دروازا 24 فٹ چوڑا ہے اور 36 فٹ اونچا ہے جہاں یہ نصف گنبد کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ صحن کے درمیاں میں کھڑے ہوں تو ہمیں چاروں اطراف دالان کے علاوہ داخلی دروازوں کی عمارات کا خوبصورت اور مزین منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
مسجد وزیر خان کی اندرونی اور بیرونی دیواروں اور گنبدوں پر خطاطی کے بکثرت نمونے دیکھنے کو مل ہیں۔ زیادہ تر خطاطی آبی رنگوں کی مدد سے کی گئی ہے تاہم کاشی کاری میں بھی خطاطی کے نمونے موجود ہیں۔
جامع مسجد کے ایوان میں منبر کی موجودگی لازم ہے مگر برطانوی عہد حکومت میں مسجد وزیر خان میں کوئی منبر نہیں تھا۔ اپریل 1899ء میں جب لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے مسجد کا دورہ کیا تو اس کی تزئین و آرائش اور تعمیراتی معیارات سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس اعتراف کے طور پر اس نے اخروٹ کی اعلیٰ لکڑی کا خوبصورت منبر میو سکول آف آرٹ کے ماہر کاری گروں سے بنوایا اور تحفتاً مسجد کو پیش کیا۔ ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر منبت کاری کا یہ اعلیٰ نمونہ آج بھی مسجد کے ایوان میں موجود ہے۔
بادشاہی مسجد
بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسری بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے ، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے.
بادشاہی مسجد قلعہ لاہور کے مغربی جانب کھلنے والے عالمگیری دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ یہ خُوب صُورت اور تاریخی مسجد مغلیہ سلطنت کے چھٹے حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے حکم کے تحت شاہی سرپرستی میں 1673-74 ء تعمیر کی گئی
بادشاہی مسجد فن تعمیرات کے حوالے سے کم وبیش ایک مربع قطعہ اراضی تعمیر کی گئی ہے ۔ مسجد کا داخلی دروازہ 15 فٹ اونچے چبوترے پر واقع ہے جبکہ چبوترہ کی اپنی پیمائش (65'X35') ہے جس پر پہنچنے کے لیے 22 زینے چڑھنے پڑتے ہیں ۔ داخلی دروازے کی اونچائی 77 فٹ ہے جس کے چاروں کونوں پر مینارچے ہیں جن کی چوٹی پر گنبد ہیں۔ داخلی دروازے کے الٹے ہاتھ پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا مزار ہے ۔ داخلی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو منزلہ عمارت کے زیریں منزل پر کمرہ جات ہیں جہاں محکمہ آثار قدیمہ ، محکمہ اوقاف اور سیکورٹی گارڈ کے دفاتر بنائے گئے ہیں جبکہ بالائی منزل پر قرآن محل اور وضو گاہ تعمیر کر دی گئی ہے ، ڈیوڑھی کی عمارت بھی دو منزلہ ہے اس کی پیمائش 62'-10"X66'-7" ہے جس کی بالائی منزل پر کبھی امام مسجد اور موذن وغیرہ رہائش پذیر ہوتے تھے مگر آج کل وہاں تبرکات گیلری ہے جس میں رسول اکرم حضرت محمد ، حضرت علیؑ ، حضرت فاطمہؓ ، حضرت امام حسن ؓ ودیگر اکابرین امت کے حوالے سے تبرکات شو کیسوں میں رکھے گئے ہیں۔
بادشاہی مسجد کا وسیع وکشادہ صحن ہے جسکا مجموعی رقبہ 3,64,500 مربع فٹ بنتا ہے۔ ایوان کے سامنے ایک پلیٹ فارم ہے جو صحن سے 1'-6" اونچا ہے اور اس کا سائز 225'X150' فٹ ہے ۔ صحن کے وسط میں ایک تین فٹ گہرا پانی کا تالاب ہے جس کی لمبائی اور چوڑائی 50 فٹ ہے جو وضو کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
بادشاہی مسجد کے ایوان کی بیرونی طور پر پیمائش 275'X120' بنتی ہے جبکہ ایوان کی اونچائی 80' فٹ ہے ۔ ایوان کی چھت تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ بادشاہی مسجد لاہور کے مینار اپنی قامت میں بلند اور شکل میں عام میناروں سے قدرے مختلف ہیں۔ سطحی نقشہ میں یہ ہشت پہلو ہیں جوں جوں اوپر جاتے ہیں یہ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی تعمیر سے قبل اس قسم کے مینار مغل بادشاہ جہانگیر کے مقبرے پر تعمیر کیے گئے تھے۔ بادشاہی مسجد کے میناروں کی کل اونچائی 176'-4' ہے سیڑھیوں کی تعداد 204 ہے جبکہ کرسی کی اونچائی 20 فٹ ہے ۔
مسجد کے صحن میں شمال، جنوب اور مشرق کی جانب حجرے تعمیر کیے گئے تھے جو قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے طلباءکے زیر استعمال رہتے تھے۔ ان کی اونچائی 21 فٹ ہے جبکہ صحن سے 3 فٹ بلند ہے۔ دالان کی اندرونی چوڑائی 13 فٹ ہے ۔ مشرقی جانب کا دالان برطانوی حکومت کے ابتدائی سالوں میں گراد یا گیا ۔
سکھوں کے عہد میں یہ مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی اور سرکار نے اپنی مرضی سے یہاں اصطبل بنایا ۔ انگریزی عہد میں بھی یہاں فوجیں قیام پذیر رہیں۔اسی وجہ سے مسجد کی عمارت خصوصاً صحن وغیرہ کے فرش کو بہت زیادہ تباہ کر دیا تھا ۔ 1856 ءمیں جب بادشاہی مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف آئی تو کافی حد تک مرمت طلب تھی۔1876 ءتک ہزاروں روپے کے اخراجات سے صرف بادشاہی مسجد کی ڈیوڑھی کی مرمت ہو سکی ۔
1910 ءمیں انگریزی حکومت نے چوراسی ہزار روپیہ مرمت پر خرچ کیا ۔ 1913 ءمیں بیگم صاحبہ بھوپال نے چھ ہزار روپیہ مرمت فنڈ میں دیا۔ 1939 ءمیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات نے سرکاری طور پر مرمت کا کام شروع کرایا جو 21 برس جاری رہا اور پاکستان بننے کے بعد 1961 ءمیں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ انہوں نے مسلمان زمین داروں پر ٹیکس لگایا ۔ ابتداءمیں یہ کام محکمہ آثار قدیمہ کو سونپا گیا مگر بعدازاں مرکزی محکمہ تعمیرات عامہ کو منتقل کر دیا گیا ۔ آزادی کے بعد صوبائی محکمہ تعمیرات نے یہ کام سرانجام دیا۔
موتی مسجد
موتی مسجد لاہور کے مشہور انجینئر مامور خان نے جہانگیر کے محل کے بیرونی دروازہ کے پاس تعمیر کروائی تھی۔ لاہور میں تعمیر کی جانیوالی اس مسجد کے گول موتی نما گیند کی مناسبت سے اس کو ’’موتی مسجد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے بعض مورخین کے مطا بق مسجد کا سنہ تعمیر 1007 ہجری بمطابق 1598 عیسوی ہے
سکھ دور میں اس مسجد کو بطور شاہی خزانہ استعمال کیا جاتا رہا۔ اس مقصد کے لئے مسجد کا مرکزی دروازہ مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے بند کر دیا گیا تھا اور باقی محراب نما دروازوں میں اینٹ کی دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ مسجد کے کھلے دالان کے سامنے والے حصہ پر عارضی طور پر سایہ دار چھت تعمیر کر دی گئی تھی جس کے سامنے ایک ڈبہ نما چوبی کمرہ پہرہ داروں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا
مسجد کی یہ حالت سکھ دور کے بعد انگریزوں کے دور میں بھی برقرار رہی لہٰذا ۔ فروری 1900 ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ایشیائی سوسائٹی آف بنگال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب میں گزشتہ سال اپریل میں لاہور تھا تو میں نے تین سو سال قبل تعمیر شدہ شہنشاہ جہانگیر کی انتہائی خوبصورت مسجد کو دیکھا جو سکھ دور حکومت کی طرح اس وقت بھی بطور شاہی خزانہ استعال ہو رہی تھی۔ اس چھوٹی سی مسجد کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے ازسر نو تعمیر کرنے خواہش کا اظہار کیا تھا‘‘۔
عصر حاضر میں قلعہ لاہور کے ٹکٹ گھر سے پہلے اوپر کو ایک راستہ قلعے کی عمارت کو جاتا ہے۔ اوپر جاتے ہی بائیں جانب عہد جہانگیری کا تعمیر کردہ کتب خانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے بائیں یہ خوبصورت مسجد ایک چبوترے پر تعمیر ملتی ہے۔ اس مسجد کی مشرقی سیدھ میں اکبر کے عہد کی تعمیر کردہ ایک اور مسجد کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسجد کا دروازہ ، مسجد کی دائیں جانب کی دیوار میں سے نکالا گیا ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی مسجد کا صحن سنگ مر مر سے مزین ملتا ہے اور چاروں جانب دیواروں پر پھول بوٹیوں کا خوبصورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحن سے آگے ایک برآمدہ ہے جس میں مغل طرز تعمیر کی محرابی دیواریں آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں
دائی انگہ مسجد
برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں نے بے شمار مساجد بنوائیں جس میں سے ایک مسجد دائی انگہ ہے جو لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 1 کی دیوار کے ساتھ بنی ہوئی ہے یہ عالیشان مسجد شہنشاہ جہانگیر کے محل کی ایک مشہور عورت دائی انگہ نے 1045ء بمطابق 1663ء میں تعمیر کروائی۔ اس خاتون کا اصل نام زیب النسا تھا۔ شاہ جہاں نے اس کا دودھ پیا تھا، ۔ اس دور میں دودھ پلانے والی عورت کو انگا کہا جاتا تھا چنانچہ وہ بھی اسی نام سے مشہور ہوئی دور شاہ جہانی میں اسے بہت عزت اور عروج حاصل تھا۔ مسجد کے ساتھ اس نے جائیداد بھی وقف کر رکھی تھی۔ تاکہ مسجد کی دیکھ بھال کا بہتر انتظام ہو۔
یہ مسجد مغلیہ دور اور اس کے بعد کے کچھ عرصہ تک بڑی مقبول اور بارونق رہی مگر سکھوں کی حکومت کے دوران لاہور میں مسلمانوں کی شاہی عمارات کی جگہ کھنڈرات نظر آنے لگے سکھوں نے بڑی بے دردی سے عمارتوں کا سنگ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر و نادر اشیاء اتار لیں۔ مسلم یادگاریں، باغات، مساجد، مقبرے اور مزار سب اجڑ گئے ہر طرف ویرانی چھا گئی ایسے میں یہ مسجد بھی بڑی کسمپرسی کی حالت میں رہی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں یہاں بارود خانہ تھا۔ مسٹر ہنری کوپ، مہتم لاہور نے حکومت برطانیہ سے اجازت لے کر اس کو کوٹھی بنا دیا جب اسٹیشن بنا تو اس میں اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دفتر قائم کیا گیا۔ منشی دین محمد فوق مرحوم نے نومبر 1901ء میں اپنے اخبار پنجہ فولاد میں اس کے خلاف آواز اٹھائی تو باقی مسلم پریس نے بھی ان کا ساتھ دیا اس طرح 1903ء میں لارڈ کرزن نے اس مسجد کو مسلمانوں کو واپس کر دیا۔
تین عالیشان محرابوں پر مشتمل یہ مسجد ٹائل ورک اسلامی خطاطی اور گل بوٹوں سے مزین ہے وسطی محراب کے اندرونی اور بیرونی جانب 23 مستطیل اور مربع حجم کے بیل بوٹے بالائی حصے میں کلمہ طیبہ اور دونوں جا نب محرابوں میں اللہ کے پیارے نبیؐ کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ ۔ شاہ جہاں کے عہد کی یہ یاد گار مسجد اب کافی حد تک مکانوں میں گھر چکی ہے تاہم اب بھی لاہور ریلوے اسٹیشن سے صاف دکھائی دیتی ہے مسجد کی عمارت بہت ہی خوبصورت ہے اس پر بڑے عمدہ نقش و نگار ہیں گلکاری اور پچی کاری کا بڑا نفیس کام دیکھنے کو ملتا ہے بعض جگہ پتھر سے پتھر پر کام بھی نظر آتا ہے اکثر جگہوں پر جہاں سے اصل پتھر کے نقش و نگار خراب ہو چکے ہیں انہیں مختلف رنگوں سے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے مسجد کے دروازوں پر قرآنی آیات اور درود شریف خط نسخ میں تحریر کیا گیا ہے اس کے تین محرابی دروازے سامنے اور دو پہلوئوں پر ہیں۔ مسجد کی بیرونی عمارات پر جیسا خوبصورت کام ہے کبھی اس کے اندر بھی اتنا ہی پیارا کام تھا اور اب اندرونی حصے میں سفید اور پیلے رنگوں کی قلعی کی گئی ہے۔ مگر اب بھی کہیں کہیں نقش و نگار موجود ہیں۔ مسجد میں بہت سے قعطے لگائے گئے ہیں۔ جن پر نمازوں کے اوقات اور آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں۔ ایک دیوار پر اس مسجد کی ایک رنگین فریم شدہ بڑی خوبصورت تصویر بھی آویزاں ہے۔
مسجد کے چار مینار تھے مگر اب وہ چاروں مینار ختم ہو چکے ہیں صرف اگلے میناروں کا پلیٹ فارم باقی ہے جن پر دو نئے مینار تعمیر کر دیئے گئے ہیں درمیانی گنبد کے دائیں اور بائیں دو چھوٹے چھوٹے سے مینار بھی بنائے گئے ہیں ۔ صحن میں بائیں جانب ایک حوض اور پرانا فوارہ مسجد کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں۔ مسجد میں ایک نہایت مختصر باغیچہ بھی ہے۔
بیگم شاہی مسجد
مریم زمانی، اکبر کی بیوی اور جہانگیر کی والدہ تھی۔ وہ راجہ بہاری مل کی بیٹی اور راجہ بھگوان داس کی ہمشیرہ تھی اس نے قلعہ لاہور کی مشرقی دیوار اور اکبری گیٹ کے بالمقابل مستی دروازہ میں اپنے نام سے 1023 ہجری بمطابق 1614ء میں مسجد مریم زمانی (بیگم شاہی مسجد) تعمیر کرائی ۔
مسجد مریم زمانی وسطی بلند محرابی دروازہ کے ساتھ پانچ محرابوں پر مشتمل ہے یہ مسجد اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے پٹھانوں اور مغلوں کے عبوری دور کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس پانچ محرابی مسجد کی اندرونی وسطی محرابوں پر چاروں جانب بلندی پر تین محرابیں بنی ہیں۔ جن پر وسطی محراب اپنی سادگی اور سائیڈ کی تکون نما محرابیں چاروں کونوں ہیں۔ چھت کا وسطی حصہ آرائشی کام سے مزین ہے اور اس کے اندرونی جانب گولائی میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ دائرے میں لکھے ہوئے ۔ بیگم شاہی مسجد کے وسیع حجم کے محرابی ستون اور بھاری بھر کم گنبد اس کا سب سے بڑا نمایاں اور اوجھل وصف ہیں ۔ چھت پر جانے کے لیے دائیں اور بائیں جانب دو زینے بنے ہیں چھت کے چاروں کونوں پر بلند میناروں کی بجائے چار برجیاں اپنے پلیٹ فارم اور سیڑھیوں کے ساتھ موجود ہیں جہاں کھڑے ہو کر آپ چاروں جانب کے مناظر سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔
''اس تاریخی مسجد کو رنجیت سنگھ نے بندوقوں اور بارود کی تیاری کے لیے استعمال کیا اسی بناء پر اسے ''بارود خانہ والی مسجد'' کہا جانے لگا، لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے یہ مسجد اور اس کے ساتھ ملحقہ دکانیں مسلمانوں کے حوالے کر دیں
سنہری مسجد
کشمیری بازار میں موجود سنہری مسجد ،گولڈن مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے یہ سڑک کی سطح سے ایک منزل اوہر واقع ہے۔ یہ مسجد سائز کے اعتبار سے چھوٹی مگر خوبصورت اور شاندارعمارت ہے،
مسجد کا بانی نواب سید بھکاری خان، روشن دولہ تبریزخان کا بیٹا تھا. انہوں نے 1749ء میں رنگ محل کی قریب، کشمیری بازار میں یہ مسجد تعمیر کی ۔. نواب میر سید بھکاری خان ، نائب صوبیدارلاہور نے صوبیدار میر معین الملک (میر منو) اور شہنشاہ محمد شاہ کے زمانے میں اس مسجد تعمیر کی۔ یہ سال 1163 ہجری تقریبا 340 سال پہلے کی عمارت ہے۔ سید بھکاری خان ایک سادہ صوفی اور مذہبی ذہن رکھنے والے شخص تھے ان کو ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی تھی۔.
گردوارہ جنم استھان گورو رام داس
اندرن شہر لاہور میں دہلی درواذے سے شاہی قلعہ تک شاہی گزر گاہ پر چونا منڈی اور بیگم شاہی مسجد کے نزدیک گردوارہ جنم استھان گورو رام داس موجود ہے۔
روایت کے مطابق سکھ مزہب کے چوتھے گرو، گرو رام داس کی پیداہش اور بچپن اس جگہ گذرا تھا۔ انکی یاد ویں یہاں گردوارہ تعمیر کیا گیا۔ سکھ دور میں اس گردوارہ کی توسع کی گی۔ گردوارہ کی عمارت 122 ٭ 97 فٹ کے قیمتی سفید سنگے مرمر کے بلند چوبوترے پر قایم یے۔
سیکرڈ ہارت
لاہور شہر میں لارنس روڈ پر واقع کیتھڈرل کو سیکرڈ ہارت آف جیسز کیتھڈرل کہتے ہیں اس گرجا گھر کا سنگ بنیاد گارڈ فری پلیمکنس نے 4اکتوبر 1903ءکو رکھا تھا۔ اس کی عمارت نومبر 1907میں مکمل ہوگئی۔ 1957ءکو گرجا گھر کی گولڈن جوبلی دھوم دھام سے منائی گئ۔
گرجا گھر کے بڑے مینار کی بلندی 165فٹ ہے جبکہ گنبد 120فٹ اونچا ہے یہ مخصوص انداز تعمیر گوتھک میں بنایا گیا ہے جو یورپ میں عرصہ دراز تک رائج رہا اس طرز کو سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں زیادہ فروغ حاصل ہوا تھا۔
چرچ کی کل لمبائی 200فٹ ہے جن میں سے 30سے 40فٹ کا حصہ عبادت گاہ کے طور پر مختص کیا گیا ہے چرچ کی چوڑائی 68فٹ ہے
لاہور کیتھڈرل
لاہور کا یہ سب سے بڑا اور خوبصورت گرجا گھر شاہرا قائد اعظم پر واقع ہے یہ سٹیٹ بینک کی لاہور شاخ کے عین سامنے واقع ہے شروع میںیہ "ککڑ گرجا" کے نام سے معروف تھا۔ اس کی وجہ اس کے مینار پر نصب مرغ بادنما تھا۔ اس لیے لوگ اسے اس نام سے موسوم کرنے اب اسے لاہور کیتھڈرل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
لاہور کیتھڈرل کی بنیاد بشپ تھامس والپی فرنچ کے ہاتھوں مال روڈ کی تعمیر کے وقت ہی رکھ دی گئی تھی اور یہ 1887ءمیں مکمل ہوا۔ کیتھڈرل کی عمارت 225فٹ طویل اور 152فٹ چوڑی ہے اس کے مینار نما کمروں کی اونچائی 65فٹ ہے گرجا مال روڈ سے قدرے اونچا ہے۔یہ اندر سے بھی اتنا دلکش ہے جتنی اس کی عمارت باہر سے دیکھنے میں خوبصورت ہے اس میں ایک سنگ مر مر کا حصہ سکاوٹنگ تحریک کے بانی لارد بیڈن پاول کا عطیہ کردہ ہے گر جے پر گھنٹیاں 1904ءمیں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں لگائی گئی تھیں۔