(مدثر علی رانا) صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون سازی کی شرط پر عملدرآمد نہ کر سکے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد آئندہ ہفتے صوبائی حکام سے الگ الگ مذاکرات کرے گا، نیشنل فسکل پیکٹ، امدادی قیمتوں کا تعین، بجٹ سرپلس سمیت اہم نکات ایجنڈے میں شامل ہیں۔
قومی مالیاتی معاہدے کے تحت 30 اکتوبر تک قانون سازی کا عمل مکمل کرنا تھا، آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات سے قبل پنجاب اور کے پی نے کابینہ سے منظوری لی، صوبائی اسمبلی سے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون تاحال منظور نہ ہو سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف شرط کے مطابق صوبوں کو جنوری 2025 سے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانا ہے، زرعی آمدن پر 5 فیصد سے 45 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے گا، 30 اکتوبر تک تمام صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون سازی نہ ہو سکی۔
صوبائی اسمبلی سے قانون سازی نہ ہونے پر آئی ایم ایف کی شرط پوری نہیں ہوئی، سب سے پہلے زرعی آمدن پر ٹیکس کی پیشرفت خیبرپختونخوا نے کابینہ سے منظوری لیکر کی، پنجاب میں آئی ایم ایف وفد کا وزٹ شیڈول ہونے پر صوبائی کابینہ سے منظوری ہوئی جبکہ سندھ اور بلوچستان زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے قانون سازی نہ کر سکے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت زرعی آمدن پر ٹیکس صوبے ہی جمع کریں گے، زرعی اشیاء کی امدادی قیمتیں مقرر نہ کرنے کیلئے صوبائی اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔