(ذیشان یوسفزئی) آئی پی پیز کے حوالے سے تحقیقات کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق تحقیقات کے پہلے مرحلے میں انکشاف ہوا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں میں تضادات نکلے ہیں جبکہ متعدد آئی پی پیز بے نامی ہیں جبکہ کچھ آئی پی پیز کی تو ٹیکنالوجی بھی معاہدوں کے مطابق نہیں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد آئی پیز کا پلانٹ فیکٹر معاہدوں سے مختلف ہے جبکہ بعض آئی پی پیز فرانزک آڈٹ سے گریزاں ہیں، آئی پی پیز اوور انوائسنگ میں بھی ملوث نکلی ہیں، آئی پی پیز نے خلاف قانون مراعات حاصل کیں، آئی پی پیز کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں کھلی چھوٹ دی گئی۔
دنیا نیوز کو ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹیکس چھوٹ اور ٹیکس چوری سے آئی پی پیز نے 1200 ارب روپے ناجائز حاصل کیے، 1994 کے آئی پی پیز کی شرط تھی کہ ان کا ٹیرف 5 روپے 91 پیسے سے تجاوز نہیں کرے گا، آئی پی پیز کی جانب سے سرمائے، منافع اور بجلی کی فروخت کی رسیدیں بھی مشکوک نکلیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض آئی پی پیز نے غلط معلومات فراہم کر کے معاہدوں میں تبدیلیاں کرائیں، مقامی کمپنیوں نے سرمائے کو کئی گنا کرنے کے لئے بیرون ملک کے ایڈریس دیئے، بعض غیر ملکی بااثر افراد کو آئی پی پیز کا پارٹنر بنایا گیا۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بعض آئی پی پیز نے حکومت کو معاہدوں پر نظر ثانی کے بجائے بین الاقوامی ثالثی عدالتوں میں چیلنج کرنے کی دھمکی دی، 5 آئی پی پیز نے رضا کارانہ طور پر نرخ اور منافع کی شرح کم کرنے کا عندیہ دیا۔