(ویب ڈیسک ) برصغیر پاک وہند کی نامور گلوکار ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 98 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔
فن گائیکی کا سرمایہ، مدھر اورسریلی آواز کی مالک ملکہ ترنم نورجہاں، موسیقی کا ایک درخشاں عہد تھیں، 21 ستمبر 1926 کوقصور کے ایک موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔
نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا، چار سال میں انھیں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا ، سات برس کی عمر میں انھیں موسیقی کی اتنی شد بد ہو چکی تھی کہ وہ اپنی بڑی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانا گانے لگی تھیں۔
ابتدا میں وہ مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور دوسری گلوکاروں کے مقبول گیت گاتی تھیں ، آٹھ نو برس کی عمر میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے سٹیج پر پرفارم کرنا شروع کر دیا۔ یہیں انھیں موسیقار جی اے چشتی مل گئے جنھوں نے نور جہاں کی آواز کو مزید سنوارا اور انھیں چند طبع زاد گیتوں کی دھن بنا کر دی۔
نورجہاں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1935 میں بطورچائلڈ سٹارفلم پنڈ دی کڑیاں سے کیا جس کے بعد انمول گھڑی،ہیرسیال اور سسی پنوں جیسی مشہور فلموں میں اداکاری کے جوہر آزمائے۔
سن 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔
قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی خود انہوں نے دی تھیں۔
بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔
میڈم نے مجموعی طور پردس ہزار سے زیادہ غزلیں گائیں،میڈم نورجہاں الفاظ کی ادائیگی اور سر کے اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بھارت کی مشہور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کو خوب سراہا، گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز کاجادو ہر ایک پر چھایا رہا۔
ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے فنی کیریئر کے دوران ہزاروں گیت گائے اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قومی نغمے بھی گائے جو ہماری قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور نشان امتیاز سے نوازا، ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ء کو طویل علالت کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں ، وہ کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔