(ویب ڈیسک)ماہرین کی جانب سے ذیابیطس کی اقسام سے متعلق تفصیلی تحقیق جاری کردی گئی۔
ماہرین کی جاری کردہ تحقیق کے مطابق ٹائپ 1 ذیابیطس یہ نظامِ مدافعت کی بیماری ہے، یہ انسانی جسم کی انسولین فیکٹریوں پر حملہ کرتی ہے تاکہ جسم میں ہارمون اتنی مقدار میں موجود نہ رہ سکے کہ وہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کر سکے جبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کا تعلق عموماً طرزِ زندگی سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم میں جمع چربی انسولین کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔
تحقیق کے دوران 14ہزار سے زائد مریضوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لیا گیا، ان مریضوں کو 5 گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔(گروپ 1) شدید ’آٹو امیون‘ ذیابیطس روایتی ٹائپ 1 جیسی ہے، یہ مریض کو اس وقت نشانہ بناتی ہے جب وہ جوان ہوتا ہے اور بظاہر صحت مند بھی لیکن یہ بیماری اس کے جسم میں مدافعتی نظام کو نشانہ بنا کر انسولین پیدا نہیں ہونے دیتی۔
(گروپ 2) شدید انسولین کی کمی والی ذیابیطس کے مریض ابتدائی طور پر گروپ 1 کے مریضوں جیسے ہی لگتے ہیں۔ وہ جوان ہوتے ہیں، ان کا وزن مناسب ہوتا ہے لیکن جسم میں مدافعتی نظام ٹھیک ہونے کے باوجود انسولین پیدا نہیں ہوتی۔
(گروپ 3)اس قسم کی ذیابیطس کے مریضوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے جسم میں اگرچہ انسولین بن رہی ہوتی ہے لیکن وہ اثر نہیں کرتی۔(گروپ 4) موٹاپے سے متعلقہ ذیابیطس کےشکار وہ افراد ہوتے ہیں جن کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن میٹابولزم کے حوالے سے وہ تیسرے گروپ کے قریب تر ہوتے ہیں۔
(گروپ 5)عمر سے متعلقہ ذیابیطس کے مریضوں میں بیماری کی علامات دیگر گروپوں کے مقابلے میں زیادہ عمر میں ظاہر ہوتی ہیں اور ان کی بیماری بھی زیادہ شدید نہیں ہوتی۔ تحقیق کے محقق کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی اہم ہے اور ہم مخصوص ادویات کی جانب ایک حقیقی قدم اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تین شدید اقسام کو دو نرم اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیز ادویات سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
گروپ 2 کے مریضوں کو موجودہ درجہ بندی کے تحت ٹائپ 2 ذیابیطس کا مریض قرار دیا جاتا ہے ،تاہم نئی تحقیق کے مطابق ان کی بیماری کا تعلق بیٹا سیلز سے ہے نہ کہ ان کے زیادہ موٹے ہونے سے اور اس لیے ان کا علاج ٹائپ 1 کے مریضوں کی طرز پر ہونا چاہیے۔اسی طرح گروپ 2 میں آنے والے مریضوں میں بینائی جانے کا خدشہ باقی مریضوں سے کہیں زیادہ ہے تو گروپ 3 کے مریضوں کے گردے ناکارہ ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہوں گے۔