(لاہور نیوز) سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ براہ راست سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔
دریں اثناء حامد خان کے بلانے پر بیرسٹر علی ظفر دلائل کیلئے روسٹرم پر آگئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟
انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا: بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 دو طرح سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔
الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے: وکیل پی ٹی آئی
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اس کے ارکان ہے اس لئے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کئے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہو سکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا، سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا: بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشین کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کئے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔
جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے: چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، اگر ایوب خان کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔
انہوں نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا؟ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے؟ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ یا تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔
آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت: چیف فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دے دے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے، انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی سٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے، سابق سربراہ نے نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین اس وقت بانی پی ٹی آئی تھے۔
چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تو پھر کس کا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابرممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں، مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں؟ برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں؟
اس دوران کمرہ عدالت میں چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب الیکشن ہوگیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دیئے گئے۔
کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے، ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دکھائی کہ (پی ٹی آئی) کو حکومت میں نوٹس دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا تھا۔
پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی،جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پر اعتراض کا جواب دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔
بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں، الیکشن ہونا ہیں:چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل بانی پی ٹی آئی کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا؟
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کیا پی ٹی آئی کے ممبر ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے 2009 سے ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔
دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟ جسٹس فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟ عمر ایوب کے پینل نے کاغذات یکم دسمبر کو جمع ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔
دریں اثناء عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔