(ویب ڈیسک) صوبائی دارالحکومت کے بچوں کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بارخون کے کینسر میں مبتلا بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا۔
پاکستان میں اگرچہ متعدد نجی ہسپتالوں میں بچوں سمیت بالغ افراد کے بھی بون میرو ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں،تاہم پہلی بار کسی بھی سرکاری ہسپتال میں اب یہ کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے۔
چلڈرن ہسپتال لاہور میں ماہرین نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ گزشتہ ماہ نومبر میں کیا تھا اور اب مریض کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
لاہور چلڈرن ہسپتال کے ماہرین نے خون کے کینسر میں مبتلا بچے کا پہلے تین سال تک علاج کرکے اسے صحت یاب کردیا تھا لیکن بچے میں دوبارہ کینسر آیا تو انہوں نے ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا۔
دس سالہ ابراہیم میں چند سال قبل بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن اب ان کے ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹرز نے ان کا ٹرانسپلانٹ کیا۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ مریض کے بون میرو کے لیے ان کی بڑی بہن کا عطیہ کردہ کچھ بون میرو لیا گیا، جسے ابراہیم کے جسم میں داخل کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق نئے بون میرو ڈالنے سے پہلے مریض کا اپنا پورا بون میرو نکالا گیا، پھر اس میں عطیہ کردہ بون میرو ڈال کر اس کے کام کرنے تک مریض کو مانیٹر کیا گیا۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ جیسے ہی مریض میں نئے بون میرو نے کام شروع کردیا، مریض کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت گھر جانے کی اجازت دے دی گئی اور کم از کم اگلے 6 ماہ مریض کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر انہیں کوئی خطرناک انفیکشن نہ ہوا تو وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔
ڈاکٹرز کے مطابق بون میرو نہ ہونے کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سفید اور سرخ خون سمیت پلیٹ لیٹس نہیں بنتے جبکہ دیگر کمزوریاں بھی ہوجاتی ہیں، اس لیے ایسے مریضوں کو انفیکشن سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ 10 سالہ ابراہیم کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کیس پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال کا پہلا ٹرانسپلانٹ ہیں جبکہ چلڈرن ہسپتال 2018 سے مختلف بیماریوں کے ٹرانسپلانٹ کر چکا ہے لیکن پہلی بار بون میرو کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
ڈاکٹرز سمیت ابراہیم کے والدین کو بھی امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔