(لاہور نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے شہر بھر کے کیفے رات 10 بجے بند کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے تدارک سموگ سے متعلق فاروق ہارون و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جوہر ٹاؤن میں ساری رات کیفے چلتے ہیں جس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ نے حکم دے رکھا ہے کہ 10 بجے کے بعد کوئی کمرشل سرگرمی نہیں ہوگی، یہ حکم بہت تھوڑی جگہ پر مانا جا رہا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ان سب کیفے کو سیل کیا جائے، رات 10 بجے کے بعد انہیں دیکھا جائے، جو کیفے کھلا ہو اسے سیل کیا جائے،پولیس اور ایل ڈی اے وہاں جائے، اور چیک کرے، جو خلاف ورزی کے مرتکب ہوں انہیں سیل کیا جائے اور عدالتی حکم کے بغیر ڈی سیل نہ کیا جائے، صرف ویک اینڈ پر رات گیارہ بجے تک کیفے کو کھولنے کی اجازت ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سب سے بڑا مجرم محکمہ ماحولیات ہے: لاہور ہائیکورٹ
دوران سماعت عدالت نے ڈی جی ماحولیات سے استفسار کیا کہ کونسے انڈسٹری یونٹس ہیں، جنہیں آپ نے سیل کیا؟ جس پر ڈی جی ماحولیات نے جواب دیا کہ ہم نے جو بھی اقدام اٹھائے ہیں اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ڈی جی ماحولیات کی رپورٹ پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سب سے بڑا مجرم محکمہ ماحولیات ہے، محکمہ ماحولیات کے لوگ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، میں محکمہ ماحولیات کے افسروں کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجوں گا، ڈی جی صاحب! ایسا نہ ہو کہ اگلا نمبر آپ کا ہو۔
عدالتی ریمارکس پر ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ ہماری بہت سی انڈسٹریز ہمارے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی تھیں، کوئی بھی افسر اگر غیر قانونی کام میں ملوث ہوگا تو ہم سخت کارروائی کریں گے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں ڈی سیل ہونے والی فیکٹریوں کے معاملے پرآپ نے متعلقہ افسران کیخلاف اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟ جس پر ڈی جی ماحولیات نے جواب دیا کہ میں نے ایک ایک افسر کو بلا کر دریافت کیا کہ کس نے فیکٹریاں ڈی سیل کی ہیں۔
عدالت عالیہ نے ڈی جی ماحولیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کوئی افسر کسی فیکٹری کو ڈی سیل نہیں کر سکتا، اگر کسی فیکٹری کو ڈی سیل کرنا ہے تو پہلے اس عدالت سے رجوع کریں۔
فیکٹریاں ڈی سیل ہونے بارے وکیل جوڈیشل کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ٹریبونل کے تحت فیکٹریاں ڈی سیل ہوئی تھیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ آڈر کیسے پاس ہوا؟۔
لاہور ہائیکورٹ کا ڈی سیل فیکٹریوں کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم:
عدالت نے ڈی جی ماحولیات کو حکم دیا کہ آپ تمام ڈی سیل ہونے والے فیکٹریوں کو سیل کریں، آپ 2 ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی بھی کریں، پرائیویٹ دفاتر 2 دن گھر سے کام کریں۔
وکیل جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ اگر صرف دھواں کنٹرول کر لیں، بھٹے کنٹرول لیں تو اتنا خوار نہیں ہونا پڑے گا، عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ فصلوں کی باقیات جلانا ایک مقامی مسئلہ ہے، اگر انڈیا سے ہوائیں یہاں آئیں تو یہاں کچھ نظر نہیں آئے گا۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ تعمیرات کی وجہ سے سموگ ہوئی اور حکومت اسے روک نہیں رہی، حکومت تعمیرات کو مزید بڑھا رہی ہے، اس نگران پنجاب حکومت کا مسئلہ کیا ہے ؟ یہ حکومت کیوں اتنی زیادہ تعمیرات کروا رہی ہے، سارا شہر آپ نے اکھاڑا ہوا، یہ حکومت اپنا مذاق بنا رہی ہے۔
عدالت نے ڈی جی ماحولیات سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم کہیں تو آپ ایکشن لیں، آپ خود ایکشن لیں، بیجنگ ایک کیس سٹڈی ہے، انہوں نے اپنی انڈسٹری کو نئی ٹیکنالوجی پر شفٹ کیا، صرف دورے نہ کریں، یہ عوام کا پیسہ ہے، زوم پر میٹنگ کریں۔
جسٹس شاہد کریم نے ڈی جی ماحولیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے کچھ نہیں کر رہے تھے، عدالتی احکامات پر کام کرنا شروع کیا ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ سموگ کا باعث بننے والوں کیخلاف آپ ایکشن لیں، میں تو صرف آپ کو ایکشن لینے کا ہی کہہ سکتا ہوں، کہیں عدالت کی خلاف ورزی پائی گئی تو متعلقہ افسر جواب دہ ہوگا۔
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے تدارک سموگ سے متعلق درخواستوں پر مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔