(ویب ڈیسک) سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے الزامات کی بوچھاڑ میں دفاعی مورچہ سنبھال لیا، سابق کپتان نے اعتراف کیا کہ یازو کمپنی کا ڈائریکٹر ہوں مگر وہ کرکٹرز کو مینج نہیں کرتی۔
انضمام الحق نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں اعتراف کیا کہ وہ یازوکمپنی کے ڈائریکٹر ہیں مگر یہ کمپنی کھلاڑی مینج نہیں کرتی۔ یاد رہے کہ اس کے دیگر ڈائریکٹر وکٹ کیپر محمد رضوان اور پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی ہیں، انضمام پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بورڈ میں مجھے عہدہ دینے سے پہلے کچھ بھی ڈیکلئیر کرنے کا کہا جاتا تو میں ضرورکرتا، مجھے علم تھا کہ اس کمپنی کی کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں ہے، میں نے اپنے وکیل کے ذریعہ 2روز قبل بورڈ کو خط لکھا ہے، جوکمیٹی بنائی گئی اس نے ابھی تک مجھے بلایا نہیں ہے، میں نے کہا کہ مجھے بلا کر پوچھا جائے،طلحہ رحمانی دونوں کمپنیز کے ڈائریکٹر ہیں، ان کو کیوں نہیں بلا کر پوچھا جاتا؟ یازو کمپنی ہم نے کورونا کے دنوں میں بنائی تھی، ہم اس کے ذریعے ایمازون پر سائیکلوں کے ہیلمٹ بیچنا چاہتے تھے، بزنس کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر ہم سے ہوا ہی نہیں۔
انضمام الحق نے کہا کہ سایہ کارپوریشن کھلاڑیوں کے کنٹریکٹ مینج کرتی ہے، مجھے بھی مینج کرتی ہے، برانڈ انڈورسمنٹ کا بھی کام کرتی ہے، سنٹرل کنٹریکٹ کیلئے فیصلہ جون میں ہوا، میں اس وقت نہیں تھا، اگست میں آیا تھا، میرے آنے سے پہلے نام فائنل ہوچکے تھے، کیٹیگریز بھی طے ہوچکی تھیں، کئی ماہ تک سنٹرل کنٹریکٹ پردستخط ہی نہیں ہوئے تھے، کنٹریکٹ پر راضی نامہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ ہوا میں معلق تھا، مجھے آئے ایک ماہ ہوا تھا، بورڈ نے مجھے مداخلت کرنے کا کہا، کنٹریکٹ کی وجہ سے ٹیم میں اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، میری بابراعظم اور ذکاء اشرف کی ملاقات میں معاملہ طے ہوا۔
میں نے آئی سی سی ریونیو کے بارے میں کپتان سے کہا کہ ابھی حصے پر مت جاؤ، آئندہ بڑھ بھی جائیں گے، مجھے تو کریڈٹ دینا چاہیے تھا کہ مسئلہ حل کردیا، سایہ کارپوریشن کا سارا ریکارڈ بورڈ کے پاس ہوتا ہے ، یہ کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے،اس نے ٹیکس دیا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگنے کے بعد پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکاء اشرف نے 5 رکنی کمیٹی بھی بنا دی تھی، اس حوالے سے انضمام الحق نے کہا کہ چیئرمین اور پھر سی او او سلمان نصیر نے بھی اس حوالے سے مجھ سے پوچھا تھا، میری یہ کمپنی جیسی بھی ہے 4 سال سے چل رہی ہے، سایہ کے پاس جو کرکٹرز ہیں وہ پہلے بھی تھے، کیا بابراعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی یا دیگر کرکٹرز میری وجہ سے کھیلتے ہیں؟ جب میں چیف سلیکٹر نہیں تھا یہ تب بھی کھیل رہے تھے، ثابت کیا جائے ہم نے کس طرح کھلاڑی قابو کیے ہوئے ہیں؟
دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ جب مجھے چیف سلیکٹر بننے کی پیشکش کی گئی تو میں نے کہا کہ پہلے 3 سال اس عہدے پر رہا تو دل میں 5 اسٹنٹ ڈل گئے تھے،انہوں نے وعدہ کیا کہ اب ایسی صورتحال نہیں ہوگی، میں چیف سلیکٹر نہیں تھا تب بھی کرکٹرز میری عزت کرتے تھے، میں نے کسی کو قابو نہیں کیا ہوا، مجھے رسوا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
مجھے لوگوں نے کہا تھا کہ سب نے انکار کردیا تو آپ نے چیف سلیکٹر کا عہدہ کیوں قبول کیا، اب مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔
استعفیٰ اس لیے دیا کہ انکوائری ہوسکے، جب بھی ٹیم ہارتی ہے، نان کرکٹرز، کرکٹرز پر ملبہ ڈال کر نکل جاتے ہیں، بورڈ کی پالیسیز میں تسلسل نہیں ہوگا تو اس طرح کے مسائل سامنے آئیں گے، چند روز قبل تو مجھے ویمنز اور انڈر19 ٹیموں کی سلیکشن کیلئے کہا جا رہا تھا، میں نے انکار کیا، اب مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔