(لاہور نیوز) اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار ممتاز مفتی کو دنیا سے رخصت ہوئے 28 برس بیت گئے۔
اردو ادب میں منفرد و ممتاز نام ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905 ءکو بٹالہ ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے،ان کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا، میٹرک ڈیرہ غازی خان، انہوں نے ایف اے امرتسر اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔
ممتاز مفتی 1932ء سے 1945ء تک درس و تدریس سے وابستہ رہے، آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے، بمبئی فلم انڈسٹری میں بھی ملازمت کی۔
1951ء میں حکومت پاکستان کی انفارمیشن سروس سے وابستہ ہوئے اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر 1962ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے، ان کے ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ نے خوب شہرت پائی، پہلا افسانہ’’ جھکی جھکی آنکھیں‘‘1936ءمیں ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا جس کے بعد وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔
ممتاز مفتی کے قابل ذکر افسانوں میں ’’ان کہی ‘‘، ’’گہماگہمی‘‘، ’’چپ‘‘، ’’روغنی پتلے‘‘، ’’سمے کا بندھن‘‘ اور ’’گڑیا گھر‘‘شامل ہیں،انہوں نے ’’ہند یاترا‘‘ اور ’’لبیک‘‘ جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے۔
افسانہ نگار ممتاز مفتی خاکہ نگاری میں ’’اوکھے لوگ“، ’’پیاز کے چھلکے‘‘ اور ’’تلاش“ جیسی کتابوں کے خالق ہیں، انہیں ستارہ امتیاز اور منشی پریم چند ایوارڈ جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔
ممتاز مفتی 27 اکتوبر 1995ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔