(ویب ڈیسک) نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ٹائپ 1 ذیا بیطس کے مریضوں کے جگر میں پتے کے خلیوں کا امپلانٹ ان کی زندگی بڑھا سکتا ہے۔
فرانسیسی سائنس دانوں کی رہنمائی میں کیے جانے والے ٹرائل میں ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں (جن کا گردے کے ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہوا) کے لیے حوصلہ افزا نتائج دیکھنے میں آئے۔
خون میں شوگر کی بلند مقدار کے سبب جسم کے اعضاء میں موجود خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے تقریباً ایک تہائی ٹائپ 1 ذیا بیطس کے مریضوں کو بالآخر ایک نئے گردے کی ضرورت ہوگی اور ٹرانسپلانٹ کرانے والے متعدد مریضوں کو کچھ سالوں بعد پھر گردے فیل ہونے کا سامنا ہوگا۔
تاہم، ڈیٹا بتاتا ہے کہ ایک نیا طریقہ (آئیلیٹ ٹرانسپلانٹیشن) گردے کے ٹرانسپلانٹ کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں سے بچاتے ہوئے مریض کی زندگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اس تکنیک میں آئیلیٹ نامی خاص خلیے خلیہ عطیہ کرنے والے کے پتے سے لیے جاتے ہیں۔ یہ خلیے انسولین پیدا کرتے ہیں۔
پتہ جگر کے قریب موجود ایک عضو ہوتا ہے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس میں مدافعتی نظام اس عضو پر حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں آئیلیٹ خلیوں کو کیتھیٹر کے ذریعے ذیابیطس کے مریضوں کے جگر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جگر میں منتقل کیے جانے کی وجہ دوسرے اعضاء کی نسبت بیرونی بافت یا خلیوں پر اس کا کم مدافعتی ردِعمل ہوتی ہے۔
یورپین سوسائٹی فار اورگن ٹرانسپلانٹیشن کانگریس میں پیش کی جانے والی نئی تحقیق میں ایسے 330 مریضوں کو دیکھا گیا جن کے گردوں کا ٹرانسپلانٹ ہوا تھا۔
یونیورسٹی آف لِیلی سے تعلق رکھنے والے محققین کو مطالعہ میں یہ بھی معلوم ہوا کہ آئیلیٹ ٹرانسپلانٹ مریضوں کو اپنی بلڈ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے ریگولر انسولین کی ضرورت 70 فی صد کم تھی۔