(ویب ڈیسک) پاکستان میں ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ کروڑوں مریضوں کی تلاش کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی ’’ڈایا بوٹ‘‘ متعارف کرادیا گیا۔ ڈایابوٹ مصنوعی ذہانت پر مشتمل پروگرام ہے جو بیک وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے سوالات سن کر ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ مریضوں کو مرض کی شناخت اور متعلقہ ڈاکٹروں سے ملانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کے پروجیکٹ لیڈر سید جمشید احمد نے مقامی ہوٹل میں مصنوعی ذہانت کے پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بیماریوں کی روک تھام کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے، ذیابیطس سے بچاؤ کیلئے ہمیں طرز زندگی میں بدلاؤ لانا ہوگا، ڈسکورنگ ڈائیبٹیز دراصل پاکستان بچانے کا مشن ہے۔
انٹیلیجنس بیسڈ ڈایا بوٹ کی تعارفی تقریب میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر علی اصغر، ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے سربراہ سید جمشید احمد، عیسیٰ لیبارٹریز کے سربراہ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ، فارمیو کے ایم ڈی ہارون قاسم، ڈسکورنگ ڈائیبٹیز کے عبدالصمد اور ڈاکٹر ندیم اشرف نے خطاب کیا۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر علی اصغر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں 10 سال پہلے ہم دسویں نمبر پر تھے اب تیسرے نمبر پر آگئے ہیں اور ساڑھے 3 کروڑ پاکستانی شوگر کے مرض کا شکار ہیں، جو لوگ ابھی ٹریس نہیں ہوئے وہ شامل کرلیں تو شوگر کے مریضوں کی تعداد 6 کروڑ تک پہنچ جائے گی، پاکستان کی 26 فیصد آبادی ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے جو کسی بھی آفت سے کم نہیں۔
ڈاکٹر علی اصغر نے بتایا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس بیسڈ اس ڈایابوٹ کے ذریعے ہم اپنا رسک فیکٹر خود جان سکتے ہیں، ہمیں اب ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں پڑے گا، آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے اب یہ سب گھر بیٹھے معلوم ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ڈائیبٹیز کنٹرول رہے گی تو پیچیدگیاں نہیں ہوں گی اور اس کے نتیجے میں السر نہیں ہوگا، پاؤں کٹنے کی نوبت آئے گی نہ گردے فیل ہوں گے۔
ڈاکٹرعلی اصغر کا کہنا ہے کہ ہم اگر کھانے پینے میں میٹھی چیزوں سے پرہیز، بیکری پروڈکٹس سے خود کو دور اور کولڈرنکس ترک کردیں تو ہم اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
ڈسکورنگ ڈائیبٹیز پروجیکٹ کے سربراہ سید جمشید احمد نے بتایا کہ اگر شوگر کا مرض اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو پاکستان کی 50 فیصد آبادی شوگر کا شکار ہوجائے گی، عوامی آگاہی کیلئے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنا رہے ہیں، اس کے نتیجے میں لوگ سکریننگ اور ہم انہیں تلاش کر رہے ہیں جنہیں اپنی ذیابیطس کا علم نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے جو کالز ٹال فری نمبر پر آتی تھیں اب ڈایابوٹ ان سارے سوالوں کا جواب دے سکے گا، اس سے جو سوال پوچھیں وہ سب جواب دے گا، ڈایابوٹ یہ بھی بتا دے گا کہ کیا ہم ایک آم کھا سکتے ہیں وہ یہ تک بتا دے گا کہ ایک دن میں آپ نے کتنی کیلوریز استعمال کی ہیں جبکہ آپ کو کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے۔
سید جمشید احمد کا کہنا ہے کہ ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تب ہم شوگر کو روک سکتے ہیں۔