(ویب ڈیسک) دانتوں سے ناخن کترنے کی عادت کی وجہ نفسیاتی ہوتی ہے۔ یہ عادت بچوں میں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی پائی جاتی ہے اورذہنی دباؤ بڑھنے پر اس عادت میں مزید شدت آجاتی ہے۔
عربی میگزین ’الرجل‘ نے اس حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں دانتوں سے ناخن کترنے کی عادت اور اس کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ اس بیماری کے عوامل جینیاتی ہوتے ہیں جو ماحول کی وجہ سے بھی اس عادت یا بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس بیماری کا بنیادی محرک نفسیاتی ، سماجی اور جذباتی دباؤ ہوتا ہے جس میں انسان دانتوں سے ناخنوں کو کترتا ہے۔ ناخن کترنا ایک طرح سے جمالیاتی خرابی کا باعث بن سکتا ہے تاہم اس عادت سے صحت کے حوالے سے دیگر مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن میں ناخنوں یا ناخن کے پاس جلد میں انفیکشن ہونے کے علاوہ ناخنوں کی خرابی بھی شامل ہے۔
اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مختلف تکنیکس استعمال کی جاتی ہیں جن میں رویے کی تبدیلی کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس کے لیے نفسیاتی علاج بہت اہم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے ظاہری اسباب بھی اختیار کیے جاتے ہیں جن میں ایسا مرہم ناخنوں پر لگانے کے لیے دیا جاتا ہے جس کا ذائقہ انتہائی غیرمناسب ہو، تاہم یہ طریقہ علاج ایسے مریضوں کے لیے ہوتا ہے جو اس عادت میں جنون کی حد تک مبتلا ہوں۔
علاج کے لیے دوائی استعمال کی جا سکتی ہے؟
اگر مریض اس عادت میں اس حد تک مبتلا ہو چکا ہو کہ نفسیاتی طریقے سے اس کا علاج ممکن نہ رہے تو اس صورت میں طبی علاج کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر معالجین اس کے لیے اینٹی ڈپریشن ادویات دیتے ہیں جن کے استعمال سے انسان کم سوچنے لگتا ہے اور نفسیاتی تناؤ یا دباؤ میں بھی کمی آتی ہے جس کی وجہ سے مریض کی سوچ ناخن کترنے کی جانب نہیں جاتی۔
یہ مرض اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب دماغ پریشان کن خیالات کی آماج گاہ بنا ہو۔ ایسے میں اس عادت میں مبتلا کوئی بھی شخص لاشعوری طور پر ناخن کترتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ مریض کو دی جانے والی ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس پر بھی نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ادویات کے اثرات بھی جسم پر مرتب ہوتے ہیں جن میں چکر آنا، منہ کا خشک ہو جانا، جمائیاں آنا اور پسینے کی کثرت جیسی علامات کا ظاہر ہونا شامل ہے۔اگر مریض اس عادت میں اس حد تک مبتلا ہو چکا ہو کہ نفسیاتی طریقے سے اس کا علاج ممکن نہ رہے تو اس صورت میں طبی علاج کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی دوا معالجین کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ اگر معالجین دوا تجویز کرتے ہیں تو اس صورت میں اس کی مقررہ خوراک سے زیادہ قطعی طور پر نہ لیں۔ ادویات پر زیادہ انحصار نہ کیا جائے بلکہ انہیں انتہائی ہنگامی حالت میں استعمال کریں اور کوشش کریں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کے وقفے کا دورانیہ بڑھ جائے تاکہ ان کی عادت نہ رہے۔
اس کے لیے بہتر ہے کہ اپنی قوت ارادی پر زیادہ فوکس کرتے ہوئے اس عادت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔