(ویب ڈیسک) غریب اور ترقی پذیرممالک میں بچوں کو غیرمعیاری،غلط اور ضرورت سے زائد اینٹی بایوٹکس ادویہ دی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف آنتیں اور معدہ متاثرہو رہا ہے بلکہ بچوں میں اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت بھی پیدا ہورہی ہے۔
اینٹی مائیکروبئیل ریزسٹنس سے وابستہ جراثیم دنیا بھر کے بچوں کو بیمارکر رہے ہیں اور علاج کو مہنگا اور مشکل بھی بنا رہے ہیں۔ یہ تحقیق پبلک لائبریری آف سائنس (پی ایل او ایس) کی حالیہ اشاعت میں شامل ہے۔
اس تحقیق میں غریب اور ترقی پذیر ممالک میں دو سال سے کم عمر بچوں کے بہت سے ٹرائلز، مطالعوں اور تحقیق کو دیکھا گیا ہے۔ بالخصوص بچوں کی آنتوں میں صحت مند بیکٹیریا کی ترکیب بگڑجاتی ہے اور دھیرے دھیرے بچوں کا بدن معیاری اینٹی بایوٹکس کا اثر لینا بند کردیتا ہے اور یوں ان میں دوا سے مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس مطالعہ میں کل 2700 سے زائد تحقیقات کا بغور جائزہ لے کر اس کا میٹا تجزیہ کیا گیا ہے۔ بچوں کے علاج کے لیے کلنڈامائسین اور میٹرونیڈیزول کی بجائے ایزیتھرمائسین (اے زیڈ آئی) دی گئی تھیں۔ اگرچہ یہ دوا بچوں کی ہلاکت روکتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ سی ٹی ایکس اور اے ایم ایکس درجے کی اینٹی بایوٹکس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اے زیڈ آئی کی چند خوراک یا چند کورس سے ہی بچوں کے معدے میں خرد نامیاتی تنوع (مائیکروبایوٹا ڈائیورسٹی) تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔
اس کےعلاوہ اینٹی بایوٹکس کی بھرمارکا اثر بچوں کے جینز پر بھی پڑا ہے جو کئی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادویہ بےاثرہونے سے بچوں کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ اگلا انفیکشن ان میں مزید مشکلات لاسکتا ہے۔
اگرچہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن مطالعہ کے مطابق معدے اور آنتوں میں قدرتی بیکٹیریا کی تعداد بگڑنے سے مدافعتی نظام متاثر ہوتا ہے اور یوں دوا کا اثر ختم ہوسکتا ہے۔