(لاہور نیوز) معروف رومانوی شاعر احمد فراز کی آج 94 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔
ترقی پسند اور انقلابی شاعر سید احمد شاہ المعروف احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے، 1960ء کی دہائی میں ابھی بی اے ہی کر رہے تھے جب انکی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا، یونیورسٹی میں لیکچر شپ کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ’’ درد آشوب ‘‘ چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگِلڈ کی جانب سے ’’آدم جی ادبی ایوارڈ ‘‘عطا کیا گیا۔
1976 ء میں احمد فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ مقررکیا گیا، 1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی رہے، جنرل ضیاء کے دور میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔
احمد فراز نے اپنے لفظوں سے شاعری کو نئی جہتوں سے رُوشناس کرایا، بہت سے نامور گلوکاروں نے احمد فراز کی شاعری کو چار چاند لگا دیئے، مہدی حسن اور میڈم نور جہاں نے احمد فراز کی غزلیں گا کر خوب شہرت پائی۔
چھ دہائیوں پرمحیط ادبی زندگی پر احمد فراز کو کئی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز، ہلالِ پاکستان اور نگار ایوارڈز شامل ہیں۔
رومانوی شاعر احمد فراز کے دیگر شعری مجموعوں میں ’’تنہا تنہا‘‘، ’’جاناں جاناں‘‘، ’’خواب گل پریشاں ہے‘‘، ’’نابینا شہر میں آئینہ‘‘، ’’بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ ، ’’شب خون‘‘ ، ’’میرے خواب ریزہ ریزہ‘‘ اور ’’اے عشق جفا پیشہ‘‘ شامل ہیں۔
احمد فراز طبقاتی نظام کے خلاف ترقی پسندوں کی ہر تحریک اور آزادی صحافت کی ہر جدوجہد میں ہمیشہ اگلی صفوں میں نظر آئے، لطیف انسانی جذبوں کے پُراثر اظہار کی بدولت انکی شاعری آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہے۔