(لاہور نیوز) سال 2024ء کو کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا، جہاں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال نے عوام کو مایوس کیا،وہیں یہ مایوسی اس قدر گہری ہے کہ عوام معیشت میں ہونے والی مثبت پیشرفت کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
رواں سال کے آغاز سے ہی ملک کئی طرح کے بحرانوں کی لپیٹ میں تھا، یہاں تک خدشات ظاہر کئے گئے کہ ملک کسی بھی لمحے دیوالیہ ہو جائے گا، تاہم حکومتی کی جانب سے لئے جانے والے سخت فیصلوں کے بعد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے بہتری آنے لگی اور اس کا اعتراف غیر ملکی معاشی تحقیقاتی ادارے بھی کر رہے ہیں۔
مہنگائی (افراطِ زر) کنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مئی 2023ء میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 38 فیصد تھی جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی، سال 2023ء میں گزشتہ سال کے مقابلے افراط زر میں 10.89 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2023ء میں اوسط مہنگائی 30.77 فیصد رہی۔
سال 2024ء کے آغاز پر افراطِ زر میں کمی دیکھی جانے لگی، پاکستان شماریات بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق جنوری میں افراط زر 28.3 فیصد کی سطح پر آگیا، حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی اور نومبر 2024ء میں افراطِ زر کی شرح 4 فیصد کی سطح پر آگئی۔
قیمتوں میں اضافے کی شرح جو کہ مئی 2023ء میں 38 فیصد تھی، اب یہ شرح کم ہو کر 4 فیصد رہ گئی ہے۔اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے دوران حکومت پاکستان کو ملنے والے بیرونی قرضوں اور گرانٹس کی تفصیلات جاری کر دیں۔اقتصادی امور ڈویژن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی سے نومبر تک پاکستان کو ساڑھے 3 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے تاہم تیزی آنے کا امکان ہے۔
جولائی تا نومبر 3 ارب 57 کروڑ ڈالر کی مجموعی بیرونی فنڈنگ ہوئی جس میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط شامل ہے، گزشتہ سال کے مقابلے بیرونی فنڈز میں 43 فیصد کمی ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق 5 ماہ آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں، ممالک سے 2.57 ارب ڈالر ملے، ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 76 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہم کئے، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، عالمی بینک نے 30 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا رعایتی قرضہ دیا۔
زیر جائزہ عرصے کے دوران چین نے 9 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور فرانس نے 8 کروڑ 90 لاکھ ڈالر فنڈز دیئے، امریکا کی جانب سے 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ کی گئی، چین نے 20 کروڑ ڈالر کا قرضہ بھی رول اوور کیا۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال 24 ارب ڈالر کی مجموعی بیرونی مالی معاونت کا تخمینہ ہے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کا 12 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور ہونے کا امکان ہے، سعودی عرب سے 1.2 ارب ڈالر کی ادھار تیل کی سہولت بھی ملنے کا امکان ہے۔
بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں، ان ادروں میں کئی 100 ارب ڈالر کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے 5 سال کیلئے تیار کردہ نجکاری پلان سامنے آگیا ہے، پلان کے تحت 3 مختلف مراحل میں 24 اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔
مالی سال 2024ء سے 2029ء تک حکومت کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئر لائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹیلیٹی سٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔
یاد رہے کہ نجکاری کمیشن نے قومی ایئر لائن کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کر رکھی تھی تام صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی اور اب ٹیکس چھوٹ کے ساتھ اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔
روپے کی شرح مبادلہ یا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے گزشتہ سال حکومت اور سٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور دو طرفہ مشترکہ کاوشوں سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔یاد رہے کہ ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں زیر گردش تھیں۔
سال 2024ء کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔
انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جو کہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہو چکا ہے، اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور پر سیاسی اور غیر سیاسی سطح پر مختلف نوعیت کے تبصرے کئے جا رہے ہیں، کوئی اسے سٹے بازی کا اڈا قرار دے رہا ہے اور کوئی اس کو معشیت میں بہتری کا اشارہ قرار دے رہا ہے۔
پی ایس ایکس ویب سائٹ کے مطابق سال 2024ء کے آغاز پر سٹاک ایکسچینج میں ہنڈرڈ انڈیکس 64 ہزار 661 پوائٹنس پر تھا جو کہ دسمبر میں بڑھ کر ایک لاکھ 18 ہزار پوائنٹس کی حد کو چھوگیا، اس طرح تقریباً ایک سال سے کچھ کم عرصے میں انڈیکس میں 50 ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جو کہ کسی بھی سٹاک مارکیٹ میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
اس طرح مارکیٹ میں موجود کمپنیز کی مجموعی مالیت 14 ہزار 855 ارب روپے ہو چکی ہے جو کہ ڈالر میں 52.45 ارب روپے ہے۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیز کی مالیت سال 2013ء میں 100 ارب ڈالر ہوئی تھی جس کے بعد مارکیٹ انڈیکس میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے سے مارکیٹ کی مجموعی مالیت کم ہوگئی تھی اور سب سے زیادہ کمی ڈالر میں ہوئی تھی۔
سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پاکستان معیشت میں میکرو اکنامک بہتری، حکومت کا سیاسی طور پر مضبوط ہونا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مارکیٹ میں دلچسپی شامل ہے۔
اس حوالے سے چند ماہ قبل امریکی معاشی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج 2024 میں دنیا کی بہترین مارکیٹ رہی ہے، 100 انڈیکس ایک دہائی کی سب سے زیادہ بیرونی خریداری پر بند ہوا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق بیرونی فنڈ نے رواں سال 8.7 کروڑ ڈالر مالیت کے شیئرز خریدے ہیں، بیرونی خریداری اور بہتر معاشی اعشاریوں نے رجحان مثبت کیا ہے، سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس رواں سال 30 فیصد بڑھا ہے، 100 انڈیکس نے آج کاروباری دن کی ریکارڈ سطح بنائی ہے۔