اپ ڈیٹس
  • 254.00 انڈے فی درجن
  • 481.00 زندہ مرغی
  • 697.00 گوشت مرغی
  • پولٹری
  • امریکن ڈالر قیمت خرید: 278.35 قیمت فروخت : 278.70
  • یورو قیمت خرید: 298.40 قیمت فروخت : 300.00
  • آسٹریلیا ڈالر قیمت خرید: 177.84 قیمت فروخت : 178.15
  • کینیڈا ڈالر قیمت خرید: 201.99 قیمت فروخت : 202.35
  • اماراتی درہم قیمت خرید: 74.60 قیمت فروخت : 75.10
  • کویتی دینار قیمت خرید: 903.65 قیمت فروخت : 905.27
  • کرنسی مارکیٹ
  • تولہ: 248700 دس گرام : 213200
  • 24 سونا قیراط
  • تولہ: 227973 دس گرام : 195432
  • 22 سونا قیراط
  • تولہ: 2957 دس گرام : 2538
  • چاندی تیزابی
  • صرافہ بازار

قلعے اورحویلیاں

حویلی نونہال سنگھ

نونہال سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پوتا اور کھڑک سنگھ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ 1740میں اپنے والد کی وفات کے بعد نونہال سنگھ پنجاب کا حکمران بنا۔ 1730 میں نونہال سنگھ نے موری گیٹ اندرون لاہور میں عزیم الشان حویلی بنائی۔ یہ حویلی لاہور کی اعلیٰ عمارات میں شمار ہوتی ہے۔

اس حویلی کی عمارت کافی کشادہ ہے بڑے بڑے دالان، شہ نشینیں، تہہ خانے اور بالا خانے اس میں بنے ہوئے ہیں۔ کمروں کی چھتوں پر بہت عمدہ شیشے اور پتھروں کا کام کیا گیا ہے۔ یہ چار منزلہ عمارت ہے۔ جبکہ چوتھی منزل شیش محل کہلاتی ہے۔ شیش محل، مغل آرکیٹیکچر کے "ہوا محل" کی مانند ہے۔

آج کل حویلی وکٹوریہ گرلز ہائی سکول کے نام سے جانی جاتی ہے اور گورنمنٹ کی ملکیت میں ہے۔ اس عمارت کی پہلی تین منزلوں کو بطور سکول استعما ل کیا جاتا ہے۔

 مبارک حویلی

لاہور کے مشہور موچی گیٹ میں داخل ہوں تو آگے جا کر مشہور چوک نواب صاحب آتا ہے جو کہ نواب علی رضا قزلباش سے منسوب ہے۔ یہاں سے سامنے کی جانب دو راستے ہیں، دائیں جانب اکبری دروازہ ہے۔ جبکہ بائیں جانب چند قدم آگے سبز دروازے کی عظیم الشان حویلی نظر آتی ہے جسے مبارک حویلی کہا جاتا ہے۔

لاہور میں مغل حکومت کے آخری دور میں محمد شاہ بادشاہ کے عہد (۱۷۱۹تا ۱۷۴۸) میں میر برادران نے اس حویلی کی بنیاد رکھی جن کے نام میر بہادر، میر نادر اور میر بہار علی تھے۔

مغل حکو مت کے خا تمے کے بعد مبارک حویلی رنجیت سنگھ کی تحویل میں آگئی اور اسکی مرمت اور تعمیر کروائی گئی۔ جب شا ہ شجاع الملک کابل سے بے د خل ہو کر آیا تو اسے مہاراجہ کےحکم سے مبارک حویلی میں ٹھہرایا گیا۔ بعد ازاں اسے یہاں قید کر لیا گیا۔ اور اسی حویلی میں مہاراجہ نے دنیا کا بیش قیمت ہیرا کوہ نور چھینا۔

بڑی حویلی نواب علی رضا قزلباش بہ اقرار سردار مذکور کے بیع ہو گئی۔ نواب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگی میں اس حویلی میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ حویلی کا ایک علیحدہ درجہ تھا، جس میں باورچی خانے کا سامان رکھا جاتا تھا جہاں یکم محرم تا دس محرم تک غرباء و فقرا کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔یہ تمام کھانا اس حویلی میں پکایا جاتا تھا۔ آج کل حویلی کا یہ حصہ الگ ہو کر نثار حویلی کہلاتا ہے۔

حویلی راجہ دھیان سنگھ

راجہ دھیان سنگھ مہارجہ رنجیت سنگھ کے دربار کا اہم رکن رہا تھا۔ اس نے لاہور میں اپنی حویلی تعمیر کروائی جو کہ ٹکسالی دروازے کے قریب گورنمنٹ سید مٹھا ہسپتال کے سامنے واقع تھی۔ مشرق کی جانب اس کا مرکزی دروازہ ہے۔ دوسرا دروازہ جنوب کی جانب تھ، جہاں ہاتھی، گھوڑے رکھے جاتے تھے۔اسکے دائیں جانب کا راستہ زنانہ حویلی جبکہ بائیں جانب کا راستہ مردانہ حویلی تھی۔ جسکے ساتھ ہی کچہری کا مقام تھا جس میں بڑے عالیشان دالان بنے ہوئے تھے جن کے نیچے تہہ خانے تھے۔

راجہ دھیان سنگھ کو سکھوں نے قلعے میں ہی قتل کر دیا۔ اس کے بعد اسکے بیٹے ہیرا سنگھ کے پاس یہ حویلی آئی۔ پھر ہیرا سنگھ بھی سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور کئی روز تک اسکا سر اسی حویلی کے تہہ خانے میں پڑا رہا جسے بعد میں دفن کیا گیا تھا۔ انگریز عہد میں یہ حو یلی مہاراجہ گلاب سنگھ کے قبضے میں آئی۔ بعد ازاں اس حویلی میں اسسٹنٹ کمشنر لاہور کا دفتر بنا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد اس حویلی میں گورنمنٹ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، جسکی ابتداء 1864ء میں ہوئی۔ سر گنگا رام اسی حویلی میں زیر تعلیم رہے۔

اس کا کل رقبہ 46 کنال پر مشتمل تھا جبکہ اس وقت حویلی صرف 2 کنال پر مشتمل ہے۔ اس حویلی کی چند شکستہ دیواریں ابھی بھی باقی ہیں۔حویلی کی باقی ماندہ عمارت میں مسلم لیگ ہائی سکول ایک عرصہ تک کام کرتا رہا ہے۔

حویلی واجد علی شاہ

قلعہ لاہور

اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے، لیکن اکبر بادشاہ نے لاہور کی آبادی اور اہمیت کے پیش نظر ایک عظیم الشان قلعہ کی ضرورت محسوس کی۔ پرانے قلعہ، جو شاندار تھا اور نہ مستحکم، کی بنیادوں پر پختہ قلعہ بنوایا اور اس میں عالیشان ایوانات تعمیر کروائے۔ اس قلعے کو اس قدر وسیع کیا کہ اس میں ایک اچھا خاصا شہر آباد ہو سکتا تھا۔ قلعہ کی دیواریں نہ صرف پختہ اور بلند تھیں بلکہ اس قدر چوڑی تھیں کہ ان پر توپ آسانی سے چل سکتی تھی۔ یہ قلعہ لاہور شہر کے شمال مغربی حصہ میں واقع ہے۔ اگرچہ اس کی بیرونی دیواریں کئی مقامات سے شکستہ ہو چکی ہیں لیکن اب بھی عظمت گذشتہ اس کی ایک ایک اینٹ سے نظر آرہی ہے۔

جہانگیر کے دور میں قلعہ کی عمارات میں بہت توسیع کی گئی۔ اس میں بہت سی برج نما عمارتیں بنائی گئی تھیں۔ جہانگیر نے سال ۱۰۳۳ھ میں قلعہ کا شاہ برج تعمیر کرایا جس میں شاہجہان نے اپنے عہد میں بہت کچھ ترمیم و اصلاح کی۔ قلعہ کے اندر شہنشاہ اکبر  نے ایک مسجد  تعمیر کروائی تھی۔ ایک مسجد بیگمات اور حرم سرائے کی عورتوں کے لئے جہانگیر نے تعمیر کرائی۔ نام اس کا موتی مسجد رکھا۔ یہ مسجد تخت کے غربی جانب ہے۔ اس میں عبادت کے لئے پچاس فٹ لمبی اور ۲۳ فٹ چوڑی جگہ مخصوص کی گئی ہے۔

شاہجہان نے لاہور کے قلعہ میں دیوان عام کی ایک عالیشان خوشنما عمارت تعمیر کروائی۔ یہ عمارت دولت خانہ خاص و عام کے جھروکہ کے سامنے تعمیر کی گئی۔ شاہجہان نے قلعہ میں بہت سی جدید عمارتوں کا اضافہ کیا۔ چہل ستون، شاہ برج، تخت گاہ، خواب گاہ، نقارخانہ اور نقارخانے کے ساتھ باغ۔ غرض لاکھوں روپے نئی تعمیرات پر اس نے صرف کر دیئے۔ قلعہ کی مغربی جانب ایک نولکھا محل ہے۔ اسے خوشنما پتھر کے بنے ہوئے پھولوں سے جو دیواروں میں نصب ہیں، سجایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس پر نو لاکھ روپیہ صرف ہوا تھا۔

۱۷۹۸ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا اور قلعہ میں اپنی رہائش اختیار کی مگر سکھوں کو فن تعمیر کا وہ اعلیٰ مذاق حاصل نہیں ہے جو مغلوں کو تھا۔ شاہجہانی عہد کی موتی مسجد میں مہاراجہ کے حکم سے خزانہ رکھا گیا اور اس کا نام موتی مندر قرار پایا۔ اسی قلعہ میں 1846ء میں دنیا کا مشہور کوہ نور ہیرا مہاراجہ دلیپ سنگھ نے لارڈ منٹو گورنر جنرل کے سپرد کیا۔ لاہور کا قلعہ 1849 میں انگریزی فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ کامل پچھتر سال کے بعد یہ قلعہ 21 جنوری 1924کو پھر سے سول حکام کے حوالے کیا گیا۔ یہ قلعہ بھی دیگر شاہی عمارات کی طرح محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت ہے۔

شاہی حمام

اندرون شہر دلی دروازے کی شاہی گزرگاہ میں مغلیہ دور کا یہ حمام سنہ 1634ء میں شاہ جہاں کے گورنر وزیرخان نے عام لوگوں اور مسافروں کے لیے تعمیر کروایا۔ ماہرین کے مطابق یہ مغلوں کا واحد عوامی حمام ہے جو اب تک موجود ہے۔

تاہم اب اس کی عمارت میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 50 کمروں کے اس حمام کی تزئین وآرائش کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ حمام صرف نہانے دھونے کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ لوگوں کے میل ملاپ اور ذہنی آسودگی کی جگہ بھی تھی۔

ایک زمانے میں تو یہاں سکول، ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، سرکاری دفاتر حتیٰ کہ 50 دکانیں بھی موجود تھیں۔ فریسکو پینٹنگز سے آراستہ دیواروں پر چونے کی کئی کئی انچ موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔

2012ء میں والڈ سٹی اتھارٹی نے شاہی حمام کی بحالی کا کام کیا اور تاریخی عمارت کے اردگرد موجود تمام قسم کا اضِافی سامان اور تجاوزات کو اٹھوایا اور ایک نہایت سازگار ماحول فراہم کیا۔

بحالی کے پہلے مرحلے میں عمارت کے نقشے بنائے گئے اور تحقیقاتی کھدائی کی گئی جس میں 8 فٹ نیچے مغلیہ دور کی سڑک اور حمام کا اصل نظام دریافت ہوا۔

شاہی حمام ایک منزل پر مشتمل عمارت ہے اور یہ تقریبا 1.50 مربع کلومیٹر کا رقبہ گھیرے ہوئے ہے۔ یہ حمام ترکش اور ایرانیوں کی روایت پر تعمیر کیا گیا تھا۔ حمام 21 کمروں پر مشتمل ہے جو کہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ کمرے وہ تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں جو کہ ایک عوامی غسل خانے میں ہونی چاہیئں۔ اس میں مزید ایک اور کمرہ ہے جو کہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس کا رُخ مکہ کی طرف ہے اور یہ نماز ادا کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

راشد مخدوم شاہی حمام کی بحالی کے پراجیکٹ کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ انھوں نے دریافت ہونے والے نظام کی تفصیل بتائیں:

'بہت کم محنت اور وسائل سے وہ لوگ بہت کچھ حاصل کرتے تھے۔ پانی کو تین انگیٹھیوں پر گرم کیا جاتا تھا اور پانی گرم کرنے کے بعد بھاپ کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔

چمنی عمارت کی دوسری جانب تھی۔ بھاپ کو سرنگوں کے ذریعے عمارت کے نیچے سے گزارا جاتا تھا جس سے حمام ہروقت گرم رہتا۔ ٹھنڈا اور گرم پانی ایک ہی ٹینک سے لیا جاتا تھا اور تمام کمروں کا نکاس بھی ایک ہی پائپ سے ہوتا تھا۔

لاہور کی تمدنی زندگی کے تانے بانے کا مرکز دلی دروازہ اور یہاں موجود عمارتیں بازار اور مکان ہیں۔ یہاں صرف عمارتوں کا نہیں شہری زندگی کی وراثت کا سوال بھی تھا۔ اسی لیے اس حمام کو بحال کر کے محفوظ کیا جارہا ہے۔'

بحالی کے لیے ساڑھے 6 کروڑ کی رقم ناروے کی حکومت کی جانب سے دی گئی جبکہ حمام کے اردگرد نئی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ اسے محفوظ رکھا جاسکے۔