فرض شناسی کی بہترین مثال، اے ایس پی کامل مشتاق

09-11-2024

(لاہور نیوز) شہر لاہور میں تعینات اے ا یس پی کامل مشتاق کی فرض شناسی پر حقیقی تحریر۔

(قاسم علی شاہ) میرے دوست شرجیل اکبر صاحب گذشتہ مہینے ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ وہ 13 اگست کی رات گاڑی چلاتے ہوئے لاہور کے ریگل چوک سے گزر رہے تھے۔ رش بہت زیادہ تھاجس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگئی تھی۔ آس پاس بے شمار لوگوں کے ساتھ وہ بھی راستہ کھلنے کے منتظرتھے۔ اس دوران ایک شخص گاڑی کے بائیں طرف والے آئینے سے ٹکرایا جس سے وہ ٹیڑھا ہوگیا۔(یہ پہلا داؤ تھا) شرجیل صاحب توقع کررہے تھے کہ وہ شخص گاڑی کا آئینہ درست کرلے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا توشرجیل صاحب نے ہاتھ بڑھاکر بائیں طرف والا شیشہ نیچے کیا تاکہ اس شخص کو غلطی کااحساس دلائے۔ اسی دوران انھیں محسوس ہوا کہ گاڑی کے پچھلے حصے سے کوئی چیز ٹکراگئی ہے۔(یہ دوسرا داؤ تھا) انھوں نے ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھول کر پیچھے دیکھا تووہاں ایک شخص گرا پڑاتھا۔ اس نے شرجیل صاحب سے معذرت چاہی۔اس دوران بمشکل چارسے پانچ سیکنڈ گزرے ہوں گے جس میں بائیں طرف کھڑے شخص کو موقع مل گیا۔ اس نے جھپٹا مارکر گاڑی سے کوئی چیز اٹھائی اور بھاگ گیا۔ ٹریفک کے اژدہام میں اس کے پیچھے بھاگنا ممکن نہیں تھا۔ راستہ کھل گیاباور گاڑیاں آگے بڑھنے لگیں۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد شرجیل صاحب نے موبائل اٹھانے کے لیے ڈیش بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا، موبائل وہاں نہیں تھا۔انھوں نے آس پاس تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ ان پر یہ خطرناک انکشاف ہوگیا کہ چند لمحے پہلے پیش آنے والا واقعہ دراصل موبائل ہتھیانے کے لیے بنایا گیاتھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ موبائل اور قیمتی اشیالوٹنے والا گروہ ہے جوں لوگوں کادھیان ہٹاکر اور رش کا فائدہ اٹھاکراس طرح کی وارداتیں کرتاہے۔ میں نے اور شرجیل صاحب نے اس واقعہ کے متعلق ایک آگاہی پیغام بھی ریکارڈ کروایا تاکہ لوگ بیدارہوجائیں اور ایسی کسی چال کاشکارنہ ہوں۔ شرجیل صاحب نے تھانے میں موبائل گمشدگی کی رپورٹ درج کروانا چاہی لیکن کچھ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسانہ ہوسکا۔البتہ ان کی حیرانی کی انتہانہ رہی جب دو دن پہلے انھیں تھانے سے فون آیا کہ آپ کا موبائل مل چکا ہے، آکر لے جائیں۔ شرجیل صاحب سمجھے کہ کوئی دوست مذاق کررہاہے لیکن جب دوسری طرف سے تاکیداً کہاگیا کہ آکر موبائل لے لیں تو وہ سنجیدہ ہوگئے اور فوراً متعلقہ تھانے پہنچ گئے،جہاں انھیں موبائل مل گیا۔ یہ تھانہ اے ایس پی کامل مشتاق صاحب کی نگرانی میں ہے۔کامل مشتاق صاحب عوامی شکایات کے ازالے کے سلسلے میں انتہائی مستعد ہیں اور اس مقصد کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ان کے ساتھ ایس ایچ او ہاشم بھٹی صاحب اور ان کی ٹیم سرگرم عمل ہے جو اس بات کی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ موبائل چوری سمیت ہر طرح کی شکایات کو جلدازجلدحل کیاجائے۔ شرجیل اکبرصاحب کاموبائل بھی کامل مشتاق صاحب کی ٹیم نے پکڑاتھا۔ دیگر چوری شدہ موبائلوں کی رپورٹیں موجود تھیں لیکن شرجیل صاحب والے موبائل کی رپورٹ نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ لاوارث بن چکاتھا لیکن اس موقع پر پولیس افسران کی فرض شناسی اور کارکردگی قابل تحسین تھی۔ ایک پولیس افسر  موبائل کا لاک کھولنے کی کوشش کرتارہا، مسلسل غلط پاس ورڈکے اندراج کی وجہ سے جب موبائل جام ہوجاتا تو وہ اسے گھنٹہ بھر کے لیے رکھ دیتا اور اس کے بعد دوبارہ کوشش کرتا۔ مقصدیہی تھا کہ کسی طرح موبائل کھل جائے اور اصل مالک کاسراغ لگا کرموبائل اس تک پہنچایا جائے۔ اس کی محنت رنگ لے آئی اور موبائل کھل گیا، جس کے بعد شرجیل صاحب سے رابطہ ممکن ہوگیا۔ اس تحریر کامقصد آپ کو چندضروری باتوں سے آگاہ کرنا ہے۔ 1۔ اگر آپ گاڑی میں اکیلے سفر کررہے ہیں اور آپ کے ساتھ شرجیل اکبرصاحب کی طرح کوئی واقعہ پیش آجائے توفوری طور شیشہ نیچے نہ کریں، نہ ہی دروازہ کھولیں اورنہ ہی گاڑی سے باہرنکلیں۔کچھ دیرانتظار کریں یہاں تک کہ خطرہ ٹل جائے۔ 2۔ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر موبائل، پرس یا دوسری قیمتی چیز ہرگزنہ رکھیں۔ 3۔ اگر آپ کاموبائل چوری یاگم ہوجائے توپہلی فرصت میں تھانے میں اس کی رپورٹ درج کروائیں، کیوں کہ رپورٹ درج نہ ہو تو پولیس کارروائی نہیں کرسکے گی۔ رپورٹ درج کروانے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر خدانخواستہ آپ کاموبائل کسی سماج دشمن کارروائی میں استعمال ہوا تو آپ پرالزام نہیں آئے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بازیابی کی صورت میں پولیس کے پاس ریکارڈ ہوگاجس کی بنیاد پر وہ بآسانی آپ تک آپ کا موبائل پہنچاسکے گی۔ فرض شناسی کے اس واقعے سے واضح ہوگیا کہ پولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے اور دیانت داری کے ساتھ لوگوں کی امانت ان تک پہنچارہی ہے۔ اس مثبت رویے کی بدولت معاشرے میں پولیس کے بارے میں موجود روایتی سوچ دم توڑرہی ہے اور پولیس حقیقی معنوں میں عوام کی محافظ بن کرسامنے آرہی ہے۔ پنجاب پولیس میں آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹرعثمان انور صاحب کی بدولت خاصی تبدیلی آئی ہے۔ انھوں نے بے شمار عوام دوست پالیسیاں بنائی ہیں جن کی وجہ سے پولیس اور عوام قریب آچکے ہیں اور اب لوگ اپنی شکایات کے اندراج کے لیے بغیر کسی خوف کے تھانے آرہے ہیں۔ پولیس ریکارڈ آن لائن دستیاب ہے جس سے عوام کوخاصی سہولت ملی ہے۔سائلین کی شکایات سننے کے لیے عملہ موجودہے۔ نیز انھوں نے اہم عہدوں پر ایسے نوجوان پولیس افسر متعین کیے ہیں جوخوف زدہ کرنے کے بجائے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔یہ نوجوان افسران کچھ دکھانے کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی شبانہ روز محنت سے معاشرے کے امن کویقینی بنارہے ہیں۔ اے ایس پی کامل مشتاق صاحب اور ایس ایچ او ہاشم بھٹی صاحب اس کی زندہ مثالیں ہیں۔