پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کرنیوالے ارشد ندیم کی کامیابی کے سفرپرایک نظر

08-09-2024

(لاہور نیوز ) پیرس اولمپکس میں پاکستان کو 40 سال بعد طلائی تمغہ جتوانے والے ارشد ندیم نے کامیابی کا سفرکب اور کیسے شروع کیا اور پاکستان کیلئے کون سے اعزازات اپنے نام کیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

 2 جنوری 1997ء کو پنجاب کے گاؤں میاں چنوں میں پیدا ہونے والے ارشد ندیم آٹھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں ، ان کے والد ایک مزدور تھے ، ارشد زمانہ طالبعلمی سے ہی غیرمعمولی ایتھلیٹ رہے ہیں اور انہیں ٹریننگ اور بیرون ممالک سفر کیلئے سخت مالی مشکلات کا سامنابھی رہا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور کامیابی کی منزلیں طے کرتے گئے۔ یوں تو ارشد ندیم کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی اولمپکس گولڈمیڈل ہے جس کے بعد ان کے میڈلز کی تعداد دس ہوگئی ہے ، جن میں پانچ گولڈ میڈل بھی شامل ہیں۔ جیولن تھرو کے کھیل میں ارشد ندیم 2015 میں توجہ کا مرکز بنے ، 2016 میں انھوں نے ورلڈ ایتھلیٹکس سے سکالر شپ حاصل کی اور ماریشس کے آئی اے اے ایف ہائی پرفارمنس سینٹر سے بھی ٹریننگ لی ۔ فروری 2016 میں ارشد ندیم نے بھارت کے گوہاٹی شہر میں ساؤتھ ایشین گیمز میں 78.33 میٹر کی تھرو کرکے کانسی کا تمغہ حاصل کیا، اس سے اگلے سال مئی میں باکو میں ہونیوالی اسلامی یکجہتی گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ ارشد ندیم نے اپریل 2018 میں آسٹریلیا کی دولت مشترکہ کھیلوں میں 80.75 میٹر جیولن تھرو پھینک کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔اس کے علاوہ ندیم نے اگست 2018 میں انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں کانسی کا تمغہ جیت کر ریکارڈ قائم کیا۔