سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کی سزا معطل، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بری کر دیا

06-03-2024

(لاہور نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سزا کیخلاف عمران خان اور شاہ محمود کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔

ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، سماعت کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیئے کہ اس متعلق کوئی دستاویز نہیں کہ اعظم خان نے سائفر بانی پی ٹی آئی کو دیا، اگر سائفر گم ہو گیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میری استدعا ہے ملزمان کو ڈسچارج کیا جائے، عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں، جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں، تیسری دفعہ کیس ریمانڈ بیک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ عدالت نے سپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ محض یہ کہہ رہے ہیں تعلقات خراب ہو سکتے تھے ، کیا صرف اس پر کسی کو سزائے موت دے سکتے ہیں یا دس سال جیل میں رکھ سکتے ہیں کہ تعلقات خراب ہو سکتے تھے، قانون کی منشا یہ نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نہ کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی خود مان رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کہہ رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے، سپریم کورٹ کا قانون واضح ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے ، اگر آپ ٹرائل کورٹ کو کاپی دکھا دیتے تو پھر پراسیکیوشن کا کیس بن سکتا تھا، جہاں اعظم خان کہہ رہے ہیں وزیر اعظم نے مجھے کہا ملٹری سیکرٹری اور سٹاف کو کہو کہ وہ ڈھونڈیں ، تو پھر جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے والی بات تو بھول جائیں۔ عدالت نے سپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ سٹیٹ سکیورٹی کیسے خطرے میں پڑی؟ اس حوالے سے بتائیں، اگر بانی پی ٹی آئی نے سائفر گم کر دیا تو اس کے اثرات کیا ہوئے؟ جب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کیا ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شہادت میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قانون میں تھا کہ سائفر کی کاپی واپس کرنا تھی، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس کے اثرات سے آگاہ تھے، آپ کی جو رولز بک ہے اس تک مخصوص لوگ ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جرم آپ نے پورا ثابت کرنا ہوتا ہے، جلدی میں نا کراتے اور آرام آرام سے کرا لیتے تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دنیا میں کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دکھائی۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کرنے والا بینچ اٹھ کر چیمبر میں چلا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم 10، 15 منٹ میں واپس آ رہے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم لکھیں گے یہ آئیڈیل ٹرائل تھا اس سے بہتر ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، ساڑھے 3 ماہ کیس سن سن کر اب تو میرے سٹاف کو بھی یاد ہو چکا ہو گا۔ بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، جس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے کیس سے بری کر دیا۔