جو بھی کپتان ہو اسے پورا وقت اور اعتماد ملنا چاہیے: عمر گل
04-03-2024
(ویب ڈیسک) پاکستانی ٹیم کے فاسٹ بولنگ کوچ عمر گل نے کہا ہے کہ کپتان کو ٹیم بنانے کیلیے وقت اور اعتماد ملنا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں بابر اعظم کو دوبارہ کپتان بنانے کے سوال پر عمر گل نے کہا کہ پی سی بی کے ساتھ کنٹریکٹ کی وجہ سے میں اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کرسکتا،یہ فیصلہ بورڈ کی صوابدید ہے،میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جو بھی کپتان ہو اسے پورا وقت اور اعتماد ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنی ٹیم بناسکے،آپس میں معاونت اور اعتماد کی فضا ہونا چاہیے،بڑے واضح انداز میں کھلاڑی کو بتا دینا چاہیے کہ آپ کو اتنے عرصے کیلئے ذمہ داری سونپ رہے ہیں،ہر 2،3ماہ بعد یہ موضوع سامنے آجاتا ہے کہ کپتان تبدیل ہورہا ہے،ہر کپتان یا کوچ کا اپنا ویژن ہوتا ہے،اسے وقت دیں تو نتائج سامنے آئیں گے۔ کپتانی سے ہٹانے پر شاہین شاہ آفریدی کی بطور بولر کارکردگی متاثر ہونے کے سوال پر سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ ایک پروفیشنل کرکٹر پر اس طرح کی باتیں اثر انداز نہیں ہوتیں، شاہین بھی بڑی مثبت سوچ رکھتے ہیں، انہیں بورڈ کا فیصلہ قبول کرنا چاہیے، کپتان کوئی بھی ہو سب کھلاڑی اپنے ملک کیلئے کھیلتے اور پرفارم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کسی ایک فرد نہیں پاکستان کی ٹیم ہے، شاہین آفریدی قومی ٹیم کے سٹرائیک بولر ہیں، کپتانی اتنا آسان کام نہیں،آپ کو کئی معاملات دیکھنا اور میدان کے اندر و باہر کئی فیصلے کرنا ہوتے ہیں، میڈیا کا سامنا کرنا ہوتا ہے،اب شاہین پر اس طرح کے دباؤ نہیں ہوں گے،لہٰذا وہ اس فیصلے کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز کریں ،انہوں نے ماضی میں پرفارم کیا امید ہے کہ مستقبل میں بھی کریں گے۔ بیٹر یا بولر اچھا کپتان ہونے کے سوال پر عمر گل نے کہا کہ یہ قدرتی صلاحیت ہوتی ہے،ماضی میں بولرز اور بیٹرز دونوں اچھے کپتان رہے ہیں،اگر کوئی باصلاحیت ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسے کپتان بنایا جائے۔عمر گل نے کہا کہ دورہ آسٹریلیا میں شاہین شاہ آفریدی کی پیس تھوڑی کم تھی مگر وہ انجری سے بحالی کے بعد واپس آئے تھے، طویل عرصے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلے، ایسے میں فوری ردھم حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، شاہین کے فرنٹ فٹ کا مسئلہ آرہا تھا،بولنگ کرنے سے قبل دوڑ بھی تھوڑی سلو ہوئی تھی، ان چیزوں پر میں بھی ان کے ساتھ کام کررہا تھا،اسی کے ساتھ طویل فارمیٹ میں ہر سپیل کے دوران بولر میں ایک جیسی انرجی نہیں ہوتی کہ یکساں پیس برقرار رہے، پی ایس ایل میں شاہین کی سپیڈ بہتر ہوئی،انہوں نے 140کلومیٹر سے زائد کی رفتار سے گیندیں کیں، وہ اچھے ردھم میں نظر آئے،فٹنس بھی بہتر لگ رہی تھی،شاہین کا پیس اور ردھم واپس آگیا،انہیں اس میں تسلسل برقرار رکھنا چاہیے۔ عمر گل نے کہا کہ محمد عامر کو پی ایس ایل میں زیادہ وکٹیں تو نہیں ملیں مگر انہوں نے بولنگ اچھی کی،وہ تجربہ کار ہیں،عامر نے نئی گیند سے بہتر پرفارم اور درمیانی اوورز میں تجربے کا استعمال کیا،بولنگ کی ویری ایشن بھی اچھی ہے، عامر نے دستیابی تو ظاہر کردی، اب سلیکٹرز پر منحصر ہے کہ ان کو فوری طور پر ٹیم میں شامل کرتے ہیں یا نہیں۔ عمر گل نے کہا کہ شاداب خان کے بارے میں میرا بیان ماضی بن چکا،میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا،آل راؤنڈر کو سال میں 2بار کنکشن ہوا، تیسری بار ورلڈکپ سے قبل انجری ہوئی، کیمپ میں ملاقات ہوئی تو میں نے ان کے پاس جاکر معذرت کی کہ میرا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ آپ کے جذبات مجروع کروں،میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان کی اس وقت ٹیم کو ضرورت تھی،انہوں نے بھی جواب میں کہا کہ بْرا محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں، آپ نے ٹیم کیلئے ہی ایسا کہا تھا، شاداب خان سے میرا بڑا اچھا تعلق ہے،ہماری فیملیز بھی آپس میں ملتی ہیں،اس بات کا ہمارے تعلق پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ عمر گل نے کہا حارث رؤف کی انجری اور بحالی فٹنس کیلئے درکار وقت کا اندازہ نہیں جہاں تک ان کے مہنگا ثابت ہونے کی بات ہے تو کبھی کبھار وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش میں زیادہ رنز بھی پڑ جاتے ہیں،وائٹ بال کرکٹ میں بڑے ڈسپلن کے ساتھ بولنگ کرنا پڑتی ہے،1،2 اوورز خراب بھی چلے جائیں تو کم بیک کرسکتے ہیں،سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا،حارث رؤف کو اپنا ڈسپلن بہتر کرتے ہوئے لائن ولینتھ میں تسلسل کے ساتھ بولنگ کرنا ہوگی۔