ٹرانس جینڈر بچوں کیلئے اہم قدم اٹھا لیا گیا
03-31-2024
(ویب ڈیسک) لاہور کے وائڈ لائف پارک جلو کے قریب ٹرانس جینڈر بچوں کے لیے تحفظ درسگاہ کے نام سے سکول قائم کردیا گیا۔
تحفظ درسگاہ برطانوی کریکلم اینڈ ایکریڈیشن بورڈ (یوکے کیب) نے پنجاب پولیس کی معاونت سے قائم کی ہے۔ یوکے کیب کے نمائندے اور تحفظ درسگاہ کے کوآرڈنیٹر حمزہ عتیق نے بتایاکہ تحفظ درسگاہ بنیادی طور پران ٹرانس جینڈر بچوں کے لئے ہیں جنہیں ان کے خاندان قبول نہیں کرتے ہیں۔ اس درسگاہ میں تین بلاک بنائے گئے ہیں، ایک بلاک میں اسکول ہے، دوسرے میں ووکیشنل سینٹر اور تیسرے بلاک میں ہاسٹل بنایا گیا ہے۔ حمزہ عتیق کہتے ہیں کہ تحفظ درسگاہ میں 18 برس کی عمر تک کے ٹرانس جینڈر بچوں کو رکھا جائے گا جہاں انہیں اے اور اولیول کی تعلیم دی جائے گی، اس مقصد کے لیے جو ٹیچرز منتخب کیے گئے ہیں ان میں ٹرانس جینڈر بھی شامل ہیں جبکہ ایسے ٹرانس جینڈر جو اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے طویل عرصہ سے جدوجہد کر رہے ہیں ان کی خدمات بطور والینٹیرز حاصل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جو دیگر اسٹاف ہے ان کی ٹریننگ کی جا رہی ہے جبکہ ٹرانس جینڈر بچوں کی رجسٹریشن کے لیے کام شروع ہوگیا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہاں کلاسیں شروع ہوجائیں گی۔ تحفظ درسگاہ کی جہاں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی طرف سے تعریف کی جا رہی ہے وہیں انہیں کچھ خدشات بھی ہیں۔ سب سے اہم ٹاسک ٹرانس جینڈر بچوں کی تلاش اور پھر ان کے والدین کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچے کو ٹرانس جینڈر کے اس اسپیشل اسکول میں داخل کروائیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا رائٹس ایکٹویسٹ اور گورونیلی رانا کہتی ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں جب تک کوئی بچہ بالغ نہیں ہو جاتا اور اس کی جنسی علامات، عادات واضع نہیں ہوتیں اس وقت تک والدین اس کی شناخت کو چھپاتے ہیں۔ اگر کسی فیملی کو پیدائش کے بعد معلوم بھی ہو جائے کہ ان کا بچہ خواجہ سرا ہے تو وہ اس کی شناخت کو خاندان اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے چھپاتے ہیں ایسے بچوں کو عموماً لڑکا ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ وہ ایسی درجنوں خواجہ سراؤں کو جانتی ہیں جنہوں نے میٹرک بلکہ ہائر سیکنڈری تک تعلیم ایک لڑکے کے طور پر حاصل کی ہے۔