لاہور میں ایک ہزار سے زائد افراد خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے

02-20-2024

(لاہور نیوز) صوبائی دارالحکومت میں انڈر ورلڈ کے کئی بے تاج بادشاہ گزرے، ان کی دشمنیاں 1 ہزار سے زائد جانیں لے چکی ہیں۔

قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ یکطرفہ نہیں ہے، انڈر ورلڈ سے جڑے جس گینگسٹر  کا وار چلا اس نے اپنا کام کر دکھا دیا ۔ شاہ عالم مارکیٹ کے گڈز ٹرانسپورٹر بلا ٹرکاں والا  کا 40سال قبل بڑا نام تھا، ٹاپ ٹین حنیف عرف حنیفا،شفیق عرف بابا،ہمایوں گجر،اکبر جٹ، بھولا سنیارا  اور طیفی بٹ ساتھی تھے، پورا لاہور ان کی لاقانونیت اور کارروائیوں  کے نرغے میں تھا۔ اکبری منڈی کے ایک بدمعاش کے قتل کا مقدمہ حنیفا  اور ٹیپو ٹرکاں والا کے خلاف درج ہوا، بلا ٹرکاں والا نے قتل کےمقدمے میں بیٹے عارف امیر ٹیپو کو رہا کرالیا جبکہ ساتھی ملزم  حنیف عرف حنیفاکو تنہا چھوڑ دیا جس نے دل میں رنجش رکھی۔ حنیفا اور اس کے بھائی شفیق بابا نے اکتوبر 1994 میں بلا ٹرکاں والا کو اس کے اپنے ڈیرے پر قتل کر دیا، بعد ازاں بلا ٹرکاں والا کے مخالف خواجہ تعریف گلشن المعروف طیفی بٹ  سے ہاتھ ملالیا،باپ کے قتل پر   ٹیپو ٹرکاں والا نے دشمنی کے  گھوڑے کی لگام تھام لی  اور اپنے مخالفین کو مروایا۔ این کاؤنٹر سپیشلسٹ انسپکٹر نوید سعید کی مدد سے حنیفا کو دبئی سے بلایا  کر مقابلے میں پار کر دیا گیا،حنیفا کے بھائی شفیق عرف بابا کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ بلا ٹرکاں والا کی موت کے 16 برس بعد 2010 میں  ٹیپو  کو بھی دشمنی کا  عفریت نگل گیا جسے دبئی سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ کی پارکنگ میں گولیوں  سے چھلنی کردیا  گیا، ٹیپو پر طیفی بٹ، شہباز سائیں، عمران گولی اور احسن شاہ کی موجودگی میں  شوٹر خرّم اعجاز نے فائرنگ کی اور موقع پر پکڑا گیا جبکہ باقی تمام لوگ   فرار ہو گئے۔ ٹیپو کے قتل کے بعد اس کا نوجوان پڑھا لکھا بیٹا امیر بالاج بھی فوری دبئی سے لاہور آیا اور  کا روباری  معاملات بخوبی سنبھال لئے  مگر دشمنی کے جن نے پیچھا نہ چھوڑا۔ 2016 میں گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے گھروں پر فائرنگ  کا واقعہ ہوا جس کا  مقدمہ امیر بالاج کے خلاف  مقدمہ درج   کر کے اسے جیل بھجوایا گیا ،2018 میں تمام مقدمات سے بری ہونے کے بعد  امیربالاج ٹیپو ٹرکاں والا نے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا ۔ امیر بالاج نے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی بعد ازاں مسلم لیگ ن  کا حصہ بن گئے مگر  18 فروری کو اپنے دادا، باپ کے بعد خود بھی اسی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نسل در نسل چلنے والی یہ دشمنیاں سینکڑوں زندگیاں نگل چکی ہیں  اور نہ جانے مستقبل میں کس کس  کی جان جائے گی۔