توشہ خانہ کیس، بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں: چیف جسٹس
08-23-2023
(ویب ڈیسک) پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے توشہ خانہ کیس ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کے حوالے کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف 3 درخواستیں دائر کی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ 6 اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کے لیے سپیکر اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجا، اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا، سپیکر اسمبلی نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے لطیف کھوسہ کو ہدایت دی کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 روز میں ہی کارروائی کرسکتا ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک ممبر دوسرے کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج سکتا الیکشن کمیش خود بھی ایک مقررہ وقت میں کارروائی کرسکتا ہے، مالی گوشوارے جمع کرانے کے بعد 120 دن میں ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک رکن اسمبلی کسی دوسرے کیخلاف شکایت درج کروا سکتا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے مطابق رکن اسمبلی شکایت درج نہیں کروا سکتا، سپیکر ریفرنس بھیجتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن 120 دن گزرنے کے بعد، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانی ہوں گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی، آپ کا موقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں، آپ کے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کارروائی مجسٹریٹ کرے گا اس کے بعد ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے ؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں؟ قتل ہو نہ تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت شکایت کون درج کروائے گا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ شکایت الیکشن کمیشن فائل کرے گا اور شکایت بھیجنے کی اتھارٹی کسی اور کو دے گا، الیکشن کمیشن ہے کیا اس کی تعریف بھی دیکھیں۔ لطیف کھوسہ نے جسٹس مظاہر نقوی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دائیں اور بائیں بہت سمجھدار لوگ بیٹھے ہیں اور بائیں طرف والے تو بہت ہی سمجھدار ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن خود الیکشن کمیشن نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس یہ نہیں ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میری درخواست یہی ہے کہ شکایت مجاز شخص نے دائر نہیں کی، سیکرٹری الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے اتھارٹی نہیں دی تھی، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو شکایت بھیجنے کا کہہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کو صرف الیکشن کمیشن نیچے منتقل کرسکتا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن بذات خود الیکشن کمیشن نہیں، الیکشن کمیشن کیا ہے اس کی تعریف پڑھیں، چیف الیکشن کمشنر چار صوبوں کے ممبران مل کر الیکشن کمیشن بنتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف شکایت سیکرٹری نے بھیجی وہ مجاز نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ نقطہ کیسے سپریم کورٹ میں اٹھا سکتے ہیں، ہم دوسرے فریق کو سنے بغیر آپ کی اپیل کیسے مان سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سیکرٹری کو الیکشن کمیشن قرار نہیں دیا جاسکتا، مرکزی اپیل تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ تو بعد کی بات ہے، سیشن جج فیصلے کے بعد امریکا چلے گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا ہم اس کیس کو خود سنیں یا ہائی کورٹ کو کہیں کہ وہ ان نکات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، آپ کی دلیل ہے کہ بادی النظر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن شکایت نہیں بھیج سکتا تھا، سیشن کورٹ کو شکایت مسترد کرنی چاہئے تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسترد کیوں واپس بھیجنے کی بات کیوں نہیں کررہے، اپنی حد تک بات کروں تو اس معاملے کا فیصلہ تو ہائی کورٹ میں اپیل کے ساتھ ہوگا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہائی کورٹ میں یہ سوال اٹھائے؟ کیا ہائی کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا کہ آپ یہاں آگئے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان نکات پر فیصلہ کریں یا ان نکات کو ہائی کورٹ کے لیے ہائی لائٹ کریں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک ایسی عدالت نے سزا سنائی جس کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا، چیف جسٹس نے کہا کہ دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائی کورٹ اپیل میں سن سکتی ہے، آپ نے 5 اگست کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ بار بار اسی جج کو کیس ریمانڈ بیک کرتی رہی، جسٹس جمال ندوخیل نے کہا کہ اب تو ریمانڈ بیک ہونے پر ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ سناچکی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہ ، نہ ہمارے ساتھ مذاق ہوا ہے، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پہلے سماعت ہونے کا معامہ طے ہوگا، ہائیکورٹ نے اس پر کچھ نکات پر ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے کا کہا، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے ان نکات کو گھاس بھی نہیں ڈالا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا آپ ہر بات پر ہائیکورٹ پر اعتراض اُٹھاتے ہیں ، آپ فیصلوں پر اعتراض اٹھائیں ہائیکورٹ پر نہیں، آپ کو ہائیکورٹ کے فیصلے پسند نہیں آئے آپ ہمارے پاس آ گئے، عدالت پر اعتراض نہ اٹھائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے فیصلے پبلک ہوتے ہیں، فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کر سکتے ہیں، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکایت بھیجی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے کے بعد سے لکھا ہے، سردار لطیف کھوسہ نے قانون پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ 342 اسمبلی ممبران پھر صوبائی ممبران سب کی تفصیل الیکشن کمشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے، یہ دیکھنے کے لیے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہو گا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرا مقدمہ بار بار ایک ہی جج کو بھجوایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی عدالت پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے، سپریم کورٹ یہاں سول جج تک اپنے تمام ججز کا دفاع کرے گی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اس عدلیہ کے لیے اپنا خون بہایا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس لیے تو آپ سے توقعات زیادہ ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کے لیے حاضر ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے لیے نہیں اس چیئر کے لیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ جج فیصلہ دیکر لندن روانہ ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لندن والی بات نہ کریں، آپ صرف یہ بتائیں ہائی کورٹ کے بتائے نکات پر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا یا نہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا، کیس قابل سماعت ہونے کا اپنا سابقہ فیصلہ بحال کردیا، ان جج صاحب نے فیس بک پر چیئرمیں پی ٹی آئی کے خلاف زہر اگلا ہوا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، لیکن ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو کیس ریمانڈ بیک ہونے پر اعتراض تھا یا صرف جج پراعتراض تھا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے دونوں پر اعتراض تھا مگر بنیادی طور پر کہہ رہا تھا کہ جوڈیشل مائنڈ تو اپلائی کریں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں معاملہ قابل سماعت ہونے اور دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے طے ہونا چاہیے تھا، آپ چاہتے ہیں ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے یہ نقطہ طے نہیں کیا تو ہم کریں۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ ایسا کرنے سے ہائی کورٹ کی رمیڈی ضائع ہوجائے گی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ضائع ہوجانے دیں، قانون کو بالا ہونے دیں، اس کے ساتھ ہی لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹروم پر بلا لیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے تمام اعتراض پر فیصلہ کر رکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بطورِ کورٹ آف لا ہم نہیں چاہتے یہ معاملہ بار بار ایک سے دوسری جگہ جائے، ہائیکورٹ نے جو معاملات ریمانڈ بیک کیے بہتر نہیں ہو گا ہائیکورٹ بھی ان پر اپنا مائنڈ اپلائی کرے۔ عمران خان کی اپیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث احمد کے توسط سے دائر کی گئی ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے ٹرائل کورٹ کی کارروائی معطل کی جائے۔ اپیل میں استدلال کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مقدمہ ٹرائل جج کو ہی ارسال کردیا جب کہ وکیل کی جانب سے کیس کو جج ہمایوں دلاور کے علاوہ کسی اور ٹرائل جج کے حوالے کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے وکیل کو کیس منتقلی کی درخواست سے متعلق میرٹ پر دلائل پیش کرنے کی اجازت دیے بغیر کیس کو اسی ٹرائل کورٹ میں واپس بھیج دیا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ جس طرح سے ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا وہ درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کا حکم ضروری غور و خوض کے ساتھ منظور نہیں کیا گیا۔ درخواست میں مبینہ تعصب کو بنیاد بناتے ہوئے کیس منتقلی کا بھی مطالبہ کیا گیا، مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کے خلاف جلد بازی اور نامناسب انداز میں فرد جرم عائد کی گئی اور مختلف درخواستوں میں درخواست گزار کے دلائل کا بھی درست فیصلہ نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے 3 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔