بورڈ نے کسی ذمہ داری کی پیشکش کی نہ ہی دستیاب ہوں: وقار یونس

08-03-2023

(ویب ڈیسک) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈکوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انہیں کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی پیشکش کی ہے اور نہ وہ دستیاب ہیں۔

ایک کرکٹ ویب سائٹ کو خصوصی انٹرویو میں وقار یونس نے کہا کہ پی سی بی کی جانب سے کوئی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے کوئی پیشکش نہیں ہوئی، اگر کی بھی گئی تو میں اس پوزیشن میں نہیں کہ جوائن کرسکوں۔ میں ابھی جو کچھ بھی کررہا ہوں اس پر خوش ہوں،میرے بچے اس عمر میں ہیں کہ مجھے فیملی کو وقت دینے کی ضرورت ہے، تھوڑی بہت کاروباری مصروفیات کے ساتھ کمنٹری کرنا ہی درست ہے۔ مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا،البتہ ابھی کمنٹری میں مصروف رہوں گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا اچھا آغاز کیا ہے ، سری لنکن ٹیم کو اسی کے ہوم گراؤنڈ پر ہرانا اتنا آسان نہیں ہوتا، کھلاڑیوں نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر میں فخر محسوس کرتا ہوں، نوجوان بیٹرز پر مشتمل لائن اپ میں عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور سلمان علی آغا پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ تھا۔ ان کی اچھی بیٹنگ خوش آئند ہے،اس سے گرین کیپس کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو آگے چل کر کارآمد ثابت ہوگا۔ وقار یونس نے کہا کہ سری لنکا کیخلاف سیریز میں پاکستانی  فیلڈنگ اور بابراعظم کی کپتانی میں بہتری نظر آئی، کپتان کے کندھوں پر رنز بنانے کا اضافی بوجھ بھی ہوتا ہے،جونیئرز کی پرفارمنس سے یہ دباؤ کم ہوا اور ان کو فیلڈ میں زیادہ بہتر فیصلے کرنے میں آسانی ہوئی۔ بولنگ، بیٹنگ میں تبدیلیاں اور فیلڈ سیٹنگ اچھی رہی، بولرز سے لمبے سپیل بھی کروائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعمان علی پر دباؤ تھا مگر کپتان نے ان کی صلاحیتوں پر اعتماد برقرار رکھا، اسپنر نے کولمبو ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں شاندار کارکردگی دکھائی،بہتر فیصلوں اور سیریز میں کلین سوئپ سے بابر کا بطور کپتان اعتماد بھی بلند ہوا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو چار روزہ میچز کھیلنے چاہئیں وقار یونس کا خیال ہے کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کو چار روزہ میچز کھیلنے چاہئیں، شاہین شاہ آفریدی کی سری لنکا میں بولنگ ماضی جیسی نہ ہونے کے سوال پر وقار یونس نے کہا کہ طویل فارمیٹ میں واپسی سے قبل اچھی تیاری ہونا چاہیے۔ پیسرزکو ردھم میں آنے کیلئے طویل سپیل درکار ہوتے ہیں،بولرز ٹی ٹوئنٹی میچز زیادہ کھیلتے اور طویل فارمیٹ کی کرکٹ زیادہ نہیں ملتی تو ٹیسٹ کرکٹ کیلئے مطلوبہ ردھم حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے، نسیم شاہ کی پرفارمنس کے سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ ان کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی،انگلینڈ سے کھیل کر آنے کے بعد سری لنکن حبس اور گرمی میں پرفارم کرنے کیلئے مطلوبہ فٹنس ہونا چاہیے۔ پیسر نے اچھے سپیل کیے آخر میں ان کا ردھم بھی واپس آگیا کیونکہ ڈیڑھ ٹیسٹ کھیل چکے تھے،میں اسی لیے کہتا ہوں کہ کسی بھی ٹیسٹ سیریز کی تیاری کیلئے پہلے 4 روزہ کرکٹ کھیلنا چاہیے۔ جیمز اینڈرسن کی طرح پاکستانی بولرز کے کیریئرز طویل نہ ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بیٹرز مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی کے کیریئرز تو زندگی کی چوتھی دہائی تک جاری رہے۔ پیسرز کا فرق یہ ہے کہ ان کو سلو ہوم کنڈیشنز میں زیادہ زور لگانا پڑتا ہے،جس کوکا بورا بال سے ہم کھیلتے ہیں وہ بہت جلد نرم پڑ جاتی اور بولرز کا حوصلہ پست جاتا ہے، وہ زیادہ زور لگائیں تو فٹنس مسائل کا شکار ہوتے ہیں، کرکٹ بورڈ کو خاص طور پر گیند کے معاملے میں فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ 500وکٹیں حاصل کرنے والے کلب کو جوائن کرنے والے پیسرز تیار ہو سکیں۔ وقار یونس نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کا میچ ہمیشہ بڑا اور دباؤ سے بھرپور ہوتا ہے،اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا آسان نہیں،پریشر بہتر انداز میں برداشت کرنے والی ٹیم سرخرو ہوتی ہے،گذشتہ چند میگا ایونٹس میں پاکستان نے دباؤ کا بہتر انداز میں سامنا کیا ،گرین شرٹس بھارت میں بھی اچھا پرفارم کر چکے ،امید ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔