معروف شاعر اور صحافی مولانا چراغ حسن حسرت کو بچھڑے 70 برس بیت گئے
06-26-2025
(لاہور نیوز) معروف شاعر، بلند پایہ مزاح نویس اور صحافی مولانا چراغ حسن حسرت کو ہم سے بچھڑے 70 برس بیت گئے۔
چراغ حسن حسرت، جن کا اصل نام چراغ حسن اور تخلص "حسرت" تھا، 1904ء میں پونچھ کشمیر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لاہور سے بی اے کیا اور تدریس سے وابستہ رہے مگر ان کا اصل میدان صحافت اور ادب تھا جس میں وہ جلد نمایاں ہو گئے۔ 1925ء میں کلکتہ سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کرنے والے حسرت نے کئی ممتاز اخبارات میں خدمات انجام دیں، دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ فوجی اخبار سے وابستہ ہوئے اور میجر کے عہدے تک پہنچے۔ 1928ء میں مولانا ظفر علی خان نے انہیں لاہور بلا کر روزنامہ زمیندار سے وابستہ کیا، جہاں ان کے ادبی و صحافتی جوہر کھل کر سامنے آئے، قیام پاکستان کے بعد وہ روزنامہ امروز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور "سند باد جہازی" کے نام سے ان کے کالموں نے عوام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ چراغ حسن حسرت نے نہ صرف صحافت بلکہ ادب میں بھی اہم خدمات سرانجام دیں، ان کی شاعری، بالخصوص فکاہیہ نظمیں اور مسلمانوں کی تاریخ پر مبنی طویل نظم سرگزشتِ اسلام کو بے حد سراہا گیا، انہوں نے جدید شاعری کے رجحان پر تنقیدی نظمیں بھی لکھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال پر ان کا تحقیقی کام اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہے، ان کی معروف تصانیف میں اقبال نامہ، حیاتِ اقبال، مطائبات، قائد اعظم، مردم دیدہ، کیلے کا چھلکا، جدید جغرافیہ پنجاب، حرف و حکایت اور مضامینِ حسرت شامل ہیں۔ چراغ حسن حسرت اپنی آخری ایام میں علیل ہو کر کراچی سے لاہور منتقل ہوئے، جہاں وہ 26 جون 1955ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، اردو صحافت و ادب کا یہ روشن چراغ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔ ان کی 70ویں برسی پر اہلِ علم و ادب نے انہیں بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حسرت نہ صرف ایک مزاح نگار تھے بلکہ اردو زبان کے سنجیدہ فکری ورثے کے محافظ بھی تھے۔